Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 293

سوچ کی تبدیلی

وہ میرے سامنے بیٹھا تھا اس کے چہرے پر سکون اور طمانیت تھی، وہ میرے ایک دوست کا بھانجا تھا، وہ اس وقت ایک کامیاب اور مشہور و معروف شخصیت کے نام سے جانا جاتا تھا، اسے دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی تھی۔ اس نے تعلیم حاصل کرنے کے لئے محدود وسائل میں بہت محنت سے کامیابی حاصل کی، ہمیشہ تعلیم میں پہلے نمبر پر رہا، تعلیم سے فراغت کے بعد اسے ایک بہت بہترین جاب کی آفر ہوئی، جو اس نے قبول کرلی، کچھ عرصے ملازمت کرنے کے بعد اس نے اپنا کاروبار شروع کیا اوردن رات کی محنت سے اپنے کاروبار کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دی، اس وقت وہ ایک کامیاب بزنس مین تھا۔
اکثر مجھ سے ملاقات کرن آتا تھا کیونکہ دوران تعلیم اور کاروبار میں، میں نے ہمیشہ اس کی ہمت افزائی کی۔ مجھے بڑی خوشی ہے ارشد آج تمہیں اس پوزیشن میں دیکھ رہا ہوں، تم واقعی لوگوں کے لئے ایک مثال ہو، میری اس بات پر وہ زور سے ہنسا اور کہنے لگا ”انکل اگر میں کسی بڑے امیر آدمی کا اکلوتا بیٹا ہوتا تو آپ کبھی یہ بات نہ کہتے چاہے میں تعلیم یافتہ کامیاب بزنس مین ہی کیوں نا ہوتا، میں گڑبڑا گیا، ارے نہیں ارشد میرا یہ مطلب نہیں تھا، مجھے معلوم ہے انکل اس نے ہاتھ اٹھا کر کہا میں نے آپ کی بات کا بالکل برا نہیں مانا، میں نے سنتے سنتے اس بات کا عادی ہو گیا ہوں، اکثر جاننے والے یہی کہتے ہیں، لیکن سچے دل سے سوچیں کیا میں نے غلط کہا ہے، آپ کومعلوم ہے میں ایک غریب گھرانے کا فرد تھا، جہاں تین بہن بھائی اور ماں باپ کے ساتھ گزارا بہت مشکل تھا کیونکہ میرے باپ کی آمدنی اتنی محدود تھی کہ مشکل سے گھر کا خرچ پورا ہوتا تھا، اب آپ یا شاید ہر وہ شخص جو میرے ماضی سے میرے حالات سے واقف ہے ان سب کی سوچ یہی ہو گی کہ میرا باپ بہت عظیم شخص تھا، اتنے مشکل حالات میں مجھے پڑھا لکھا کر اس قابل کیا کہ میں آج ایک اچھی زندگی گزار رہا ہوں، اور اکثر میں جب یہ کہتا ہوں کہ یہ سب میری کوششوں اور محنت کا ثمر ہے تو مجھے ناخلف اولاد کا طعنہ دیا جاتا ہے۔
میں اپنے باپ کی عزت کرتا ہوں اور اسے کبھی بھی تکلفی نہیں دے سکتا لیکن میرے باپ تو گھر کے حالات کی وجہ سے میری یا میرے بھائیوں کی تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ ہم سب کی سوچ یہی تھی کہ ہم ایک غریب باپ کے بیٹے ہیں، ہماری قسمت میں تعلیم نہیں ہے، میرا باپ اس انتظار میں تھا کہ کب ہم جلدی سے بڑے ہوں اور اس کا سہارا بنیں، میں گورنمنٹ پرائمری اسکول میں تھا، جب ہمارے ایک ماسٹر نے ہمارے ننھے سے ذہن کوبدل دیا ہماری سوچ میں ایک بڑی تبدیلی آئی، انہوں نے کہا کہ تعلیم کا تعلق غربت یا امارتسے نہیں ہوتا بلکہ اپنی سوچ محنت شوق اور جذبے سے ہوتاہے۔ بس اس کے بعد میں نے عہد کیا کہ میں تعلیم حاصل کروں گا اس کے لئے مجھے کتنے لوگوں کی منت سماجت کی کہ مجھے اپنی پرانی کتابیں دے دیں، میں نے بہت مشکل حالات میں اپنے باپ کی جھڑکیاں طعنے اور حوصلہ شکنی کے باوجود ہمت نہیں ہاری، بہت مشکلوں اور تکلیفوں سے تعلیم کے پیچھے لگا رہا اور ایک دن حاصل کرلی۔
اگر میری تعلیم میں میرے باپ کا کوئی حصہ ہوتا تو میرے باقی دو بھائی جاہل نا رہ جاتے، انہوں نے حالات سے سمجھوتا کیا، اپنی سوچ کو محدود کرلیا کہ وہ غریب پیدا ہوئے ہیں اور غربت میں ہی اس دنیا سے رخصت ہوں گے، وہ دونوں معمولی نوکریاں کررہے ہیں اور اولاد کو بھی تعلیم نہیں دی، اب میں نے بڑی مشکل سے ان کو راضی کیا ہے کہ وہ میری مدد سے بچوں کو تعلیم بھی دیں اور میرے کاروبار میں بھی ہاتھ بٹائیں۔ یہ میری سوچ کی تبدیلی تھی جو آج میں اس مقام پر ہوں، اور میں نے سوچا کہ واقعی معاشی، سماجی، معاشرتی تمام مسائل کا حل سوچ کی تبدیلی میں پوشیدہ ہے۔ میر جعفر میر صادق اگر اپنی سوچ کو تبدیل کرلیتے تو ٹیپو سلطان کو شکست سے دوچار نہیں ہونا پڑتا۔ انگریزوں کی مدد کرنے والوں کی سوچ صرف اپنی اور اپنے خاندان کی ذات تک محدود تھی، اگر احساس انسانیت زندہ ہوتا تو ہندوستان انگریزوں کے ہاتھوں لاچار نا ہوتا۔
المیہ یہ بھی ہے، کہ عام طور صرف وہی شخص بہت ذہین اور ہوشیار مانا جاتا ہے جو ہیراپھیری اور ناجائز ذرائع سے دولت کماتا ہے، لوگوں کی یہ سوچ اس شخص کی حوصلہ افزائی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ جب کہ ارشد جیسے لوگ صرف اپنی محنت ایمانداری سے معاشرے میں اپنا مقام بناتے ہیں ایک بہت ہی غریب گھر میں پیدا ہونے کے باوجود اسے اس کی سوچ کی تبدیلی نے اسے بدل دیا۔ بل گیٹس مائیکروسافٹ کے بانی کا کہنا ہے کہ شرم کی بات غربت کے گھر میں پیدا ہونا نہیں ہے بلکہ شرمندگی کی بات یہ ہے کہ انسان غربت میں ہی رخصت ہو جائے، شرط یہ ہے کہ اس کے پاس اس کی سوچ بدلنے کے مواقع تھے، کسی بھی قوم کی سوچ کوئی دوسرا نہیں بدل سکتا جس ملک کے عوام اپنی سوچ کے حساب سے غیرت مند، متحد اور محب وطن ہوتے ہیں ان کو دنیا کی کوئی سپرپاور نہیں ہراسکتی۔ افغانستان اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ حالات سوچ بدلتے ہیں اور سوچ ہی حالات بدلتی ہے۔ حالات کے سانچے میں ڈھل کر سوچ کو نا بدلا تو کچھ بھی نہیں بدلتا۔ حالات دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری قوم بے اصولی اور بے ترتیبی کی زندگی گزار رہی ہے، کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جو اصول پسند ہیں اور ان کی زندگی میں ترتیب ہے، ورنہ اکثریت کی سوچ کو زنگ لگ چکا ہے۔ گھروں میں بچے بڑے سب ساتھ بیٹھ کر سارا دن ٹی وی دیکھتے ہیں۔ ڈرامے ٹاک شوز جس میں زیادہ تر گھریلو جھگڑے، سازشیں، انتقام، جرائم، قتل، کم عمری میں بچے کے ذہن کو اچھی تعمیری باتوں کی ضرورت ہے اور اس طرح کے پروگرام بچوں کا ذہن سمجھ نہیں پاتا اور اس میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ وہ سکون یکسوئی سے اپنی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دے سکتا۔ اپنی اور اپنے بچوں کی سوچ میں مثبت تبدیلی لانے کی سوچیں۔
اسی طرح پوری قوم سیاسی مداریوں کے ہاتھوں میں ناچ رہی ہے، کسی کے پاس بھی اس کی اپنی سوچ نہیں ہے اور سیاسی مداری اپنی سوچ کے مطابق اپنے سپورٹر، کارکن اور نمائندوں کو جدھر چاہتا ہے گھما دیتا ہے۔ لوگوں کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہوتی۔ وہ یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ اس وقت ملک میں جتنے بھی مسائل ہیں، مہنگائی، بے روزگاری، گندگی، بے راہ روی تعلیم کا فقدان ان سب کے حل کے لئے تمام سیاسی نمائندے مل بیٹھ کر بات کرنے کے بجائے صرف ایک دوسرے کو الزام ہی کیوں دیتے رہتے ہیں۔ مسائل کے حل کے لئے آگے کیوں نہیں آتے بلکہ ان کی تو دلی خواہش ہوتی ہے کہ یہ مسائل کبھی بھی حل نا ہوں تاکہ وہ عام کو ذمہ دار افراد کی طرف سے بددل کرسکیں۔
اگر لوگوں کی تخریبی سوچ تعمیری سوچ میں تبدیل ہو جائے تو قوم عظیم ہو جاتی ہے۔ حال یہ ہے کہ جب کوئی نوجوان بی اے یا ایم اے کر لیتا ہے تو اسے صرف وائٹ کالر جاب کی تلاش ہوتی ہے، چاہے حالات کتنے بھی خراب ہو جائیں اور اگر اسے کسی آفس میں کلرک کی نوکری مل جاتی ہے تو ساری زندگی کلرکی میں ہی گزار دیتا ہے، اس کے خیال میں وہ کچھ اور نہیں کرسکتا لیکن اگر وہ اپنی سوچ کو بدلے اور نئے نئے راستے تلاش کرنے کی کوشش کرے لیکن جائز راستے تو شاید وہ اپنے لئے کوئی بہتر راستہ چن سکتا ہے۔ صرف سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت ہماری پوری قوم کو ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں