بہت دیر کی مہرباں آتے آتے، حسن عسکری بھائی کو صدارتی تمغہءحسنِ کارکردگی مبارک 117

سی پیک ترقی کا نشان

چین پاکستان اقتصادی راہ داری منصوبہ (سی پیک) کے بارے میں ہر خاص و عام اتنا ضرور جانتا ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ نے چاہا تو ہمارے ملک کی قسمت بدل سکتی ہے۔ یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ (بھارت کے علاوہ بھی) کچھ ممالک کو یہ ترقی ٹھنڈے پیٹوں قطعاً برداشت نہیں ہو رہی ہے، نہ ہو گی۔ جب ملک کے نادر مختلف متحارب گروپ اور سیاسی پارٹیاں آپس میں دست گریباں ہوں۔ عوامی سطح کے مسائل حل کرنے کروانے والے کونسلروں کے پاس فنڈ ہی نہ ہوں، صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں عوامی ووٹ سے جیتنے والے اپنے حلقے سے لاتعلق ہو کر اسلام آباد، حیات آباد، لاہور اور کراچی میں رہتے ہوں۔ جہاں کے لیڈران اور ان کی اولادیں امریکہ، برطانیہ اور دوبئی میں پڑھی ہوں، جہاں کے اسپتالوں میں عوام کو جینے اور زندہ رہنے کی سزائیں ملتی ہوں۔ جن میں سیاسی اور حکومتی لیڈران قدم بھی رکھنا پسند نہ فرماتے ہوں تو پھر وہاں جو ہوگا کم ہوگا۔ چین ہمارا ہر موسم کا آزمودہ دوست ہے۔ یقیناً اس نے ٹھوس یقین دہائیوں کے بعد ہی اس قدر سرمایہ کاری کی ہے۔ اس میں اندرون ملک امن و امان اور آزاد نقل و حمل بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گرد گروپ آسانی سے دہشت گردی نہ کرسکیں۔ ضرب عصب کا رعب و دبدبہ جاری رہنا ضروری ہے۔ پاکستان میں ضیاءدور میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا آغاز ہوا، پھر بعض علیحدگی پسند گروپوں کے نام منظر پر آئے۔ کالعدم مذہبی عسکری تنظیمیں بھی دہشت گردی میں ملوث پائی گئیں۔ یہاں افغانستان اور بھارت کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے اول روز سے موجود ہیں۔ ایک صاحب تو پاک سرزمین پر دفن نہ ہونے کی وصیت کرکے دنیا سے رخصت ہوئے۔ نہایت شرمندگی سے لکھنے پر مجبور ہوں کہ 1997-98ءمیں جب ملک برطانیہ نے پاکستان کا دورہ کیا تو ایک موقع پر اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی نے ”ہم آج بھی آپ کی رعایا ہیں“ کہہ کر پوری قوم کو شرمندہ کیا۔ یہ بات تھڑے، پان سگریٹ کے کھوکوں اور گلی محلے کے عوامی چائے خانوں میں حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال کرنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں بیشتر فیصلے واشنگٹن سے یا پھر وہاں سے منظورے سے ہوتے رہے ہیں۔ تقریباً ہر ایک حکومت جب ان کے اشارے یا بیساکھیوں پر آتی ہے تو پھر مرضی بھی تو ان کی ہی چلے گی ناں؟
پڑوس کے کھلے دشمن اور دوست نما دشمن کب چاہیں گے کہ گوادر کی صورت میں پاکستان بھی ترقی اور شادمانی کی بہاریں دیکھے؟ غیر تحریری روایات تو یہ بھی ہیں کہ 1973-74ءمیں آئل اینڈ گیس کارپوریشن آف پاکستان (او جی ڈی سی) نے سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی اور پاکستانی سمندری حدود میں تیل، گیس اور دیگر معدنیات کا سروے کیا؟ جس میں کئی مقامات کے سراغ ملے لیکن شاہ ایران کی ایماءپر معاملہ ٹھپ کروادیا گیا۔ منظر بدل گیا لیکن شاید سی پیک سے پاکستان کی ترقی بعض دوست اسلامی ممالک کو اب بھی پسند نہیں۔

بین الاقوامی تعلقات کے کھیل میں حکمت عملی یکساں نہیں رہتی لیکن ہمیں اپنے ملک کے لئے پڑوسیوں کی جانب سے ایک موافق پالیسی کی زیادہ امید نہیں رکھنا چاہئے۔ روس بھی سی پیک کے سلسلے میں دلچسپی لے رہا ہے۔ بہت سے معاملات میں عوامی جمہوریہ چین اور روس کے مفادات ایک جیسے بھی ہیں۔ یہاں بات اثر و رسوخ کی ہے۔ ماسکو نواز گروپ پاکستان میں پہلے ہی موجود ہے۔ جب مفادات کی بات ہو گی تو کئی ایک متبادل سامنے آئیں گے۔ مثلاً حکومتی سطح کی بات چیت، بیک چینل پالیسی اور جب کچھ نہ بن سکے تو یہ گروپ تو ملک میں موجود ہیں نا ان سے ہلکا پھلکا پریشر ڈلوانا کون سا مشکل کام ہوگا۔ بھارت تو ہمارا اعلانیہ دشمن ہے، اس کا ذکر اب کیا کرنا لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ منافقت کرنے والے اسلامی ممالک سے معاملات ٹھیک کئے جائیں۔ اس وقت دہشت گردی کی جو تازہ لہر آئی ہے اس سے متعلق سنسنی پھیلائی جارہی ہے۔ ہمارے ملک کے اہم ادارے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے آگے رہن رکھے ہوئے ہیں تو آپ کا کیا خیال ہے کہ امریکہ کی مرضی کے بغیر کیا یہ ہونے والا ترقی ممکن بھی ہو سکتی ہے؟ کیا ایسا تو نہیں کہ مستقبل کی اقتصادی منڈیوں پر نظر رکھتے ہوئے امریکہ اور دیگر ممالک پاکستان کی خراب معاشی اور سیاسی حالات کے ذریعہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہوں؟ کہیں ان ممالک کی آپس کی کشمکش میں ہونے والا مالی اور جانی نقصان ہم نے تو نہیں بھرنا ہوگا؟ کہیں ہونے والی اس عظیم الشان ترقی کی آڑ میں کوئی خطرہ کی گھنٹی تو نہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں