Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 475

شہنشاہ وقت

شہنشاہ کسی وقت جلال الدین محمد اکبر پیدائشی نام بدر الدین ولد نصیر الدین محمد ہمایوں السطان الاعظم ولیخاقان مکرم جامی السطنت حقیقی و مجازی سید السطان ابوالمظفر نصیر الدین محمد ہمایوں بادشاہ غازی ظل اللہ اکبر بادشاہ نامور فتوحات ماہر فنون حرب سمجھے جاتے تھے۔ تعلیم میں بالکل کورے، لکھنے پڑھنے سے نابلد، لیکن بہترین سیاسی بصیرت، جہاندیدہ نگاہ تھے۔ اس وقت کے شہنشاہ اور اس وقت کے جو ہمارے شہنشاہ ہیں، ظل سبحانی کے نام سے ملک اور بیرون ملک بہت شہرت رکھتے ہیں۔ دونوں شہنشاہوں میں کچھ مقامات پر مماثلت ہے۔ مثلاً اکبر بادشاہ جہاں بھی گئے فتح حاصل کی اور ہمارے بادشاہ بھی ہر مقام پر فتح حاصل کررہے ہیں، اکبر بادشاہ نے ہر جگہ دشمن کے دانت کھٹے کئے، ہمارے بادشاہ پوری بتیسی نکال کر لے آتے ہیں۔ شہنشاہ اکبر ہمایوں کے سپوت اور ظہیر الدین بابر کے پوتے حاکم تخت پشت در پشت، ہمارے بادشاہ یہاں مار کھا گئے، نہ موروثی بادشاہت سے آئے اور نہ ہی موروثی سیاست سے آئے، ہاں ایک پچھلے ہمارے بادشاہ جن کو صدر کا لقب دیا گیا ان بے چاروں کی بڑی کوشش تھی کہ کوئی طریقہ نکل آئے کہ شوہر کے نام کے ساتھ بیوی کا آخری نام جائز قرار پا جائے لیکن ممکن نا ہو سکا کیوں کہ بیوی کے نام کے آخر میں شوہر کا نام آسکتا ہے لیکن شوہر کے نام میں بیوی کا نام نہیں آسکتا۔ بے چارے مایوس ہو گئے لیکن تھک ہار کر اپنے مستقبل یئعنی اولاد کے نام میں اپنی بیوی کا وہ آخری نام دیا جو اس نے خود اپنے باپ سے ادھار لیا ہوا تھا یعنی ساری زندگی شوہر کا نام اپنے ساتھ نہیں لگایا اور اولاد نے بھی باپ کا نام نہیں لگایا اور اس بادشاہ نے تو اس لئے موروثی نام اپنی اولاد کو دیا کہ حاکم تخت کی سند رہے۔
اکبر بادشاہ ناخواندہ تھے لیکن ہمارے ان صدر صاحب کا دعویٰ تھا کہ وہ ڈگری یافتہ ہیں، پرائمری اسکول کا ثبوت تو مل گیا تھا، ہائی اسکول کے ریکارڈ کے مطابق امتحان میں فیل ہو گئے تو ناراض ہو کر واپس ہی نہیں گئے۔ سرکاری کاغذات میں بی اے درج تھا اور یہ بھی کہ لندن کے ایک اسکول سے ڈگری لی ہے جب کہ برطانیہ میں اس نام کا کوئی اسکول ہی نہیں تھا۔ ہمارے ملک میں 2002ءکے قانون کے مطابق پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے گریجویٹ ہونا لازمی تھا۔ لیکن اپریل 2008ءمیں سپریم کورٹ سے یہ آرڈر منسوخ ہو گئے اور ہمارے صدری شہنشاہ نے چین کی بانسری بجائی۔ شہنشاہ اکبر 14 اکتوبر 1542ءمیں عمر کوٹ سندھ میں پیدا ہوئے اور ہمارے یہ صدری شہنشاہ بھی سندھ کراچی میں پیدا ہوئے۔ اکبر اپنے والد ہمایوں کے انتقال ہو جانے کی وجہ سے 13 سال کی عمر میں تخت نشین ہوئے اور بالغ ہو جانے تک سلطنت کی باگ و ڈور بیرام خان نے سنبھالی۔ ہمارے صدری شہنشاہ بالغ تھے لیکن سلطنت کی باگ و ڈور نا بالغوں کے ہاتھوں میں دی ہوئی تھی۔ اکبر بادشاہ جنگی فنون میں بہت ماہر تھا اور نئے نئے آلات حرب متعارف کرواتا تھا۔ جنگ کے طریقہ کار اور داﺅ پیج میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اکبر بادشاہ ہاتھیوں پر بہت بھروسہ کرتا تھا۔ اس کے اپنے 5000 ذاتی ہاتھی تھی جو کہ خاص طور پر جنگوں کے لئے سدھارے گئے تھے۔ یہ جنگجو ہاتھی کہلاتے تھے جو دشمن کی صفوں میں گھس کر تہلکہ مچا دیتے تھے۔ اکبر بادشاہ کا کہنا تھا کہ ایک جنگی ہاتھی پانچ سو جنگی سواروں کے برابر ہوتا ہے۔ نسل در نسل شاہی خاندان کے افراد ہی ملک کے فامانروا ہوتے تھے اور یہ سلسلہ کئی صدیوں تک چلا۔ ہمارے ملک میں شاہی خاندان سے کوئی حکومت میں نہیں آیا۔ البتہ اکبربادشاہ کے ہاتھیوں میں سے آگئے جو کہ حکومت کم کرتے ہیں اور اپنوں کی صفوں میں تہلکہ زیادہ مچاتے ہیں۔ وزراتیں عطا ہوتی رہیں، تعلیم کی کوئی قید نہیں، وزیر داخلہ اس کو بنایا جسے کبھی کسی اسکول میں داخلہ نہ ملا ہو۔ وزیر خارجہ ایسے لوگ بنائے گئے جن کا نام ہر اسکول سے خارج کردیا گیا ہو، یہ میں پچھلی حکومتوں کے وزیروں کا ذکر کررہا ہوں۔ وزیر صحت کا عہدہ اس کے پاس ہوتا ہے جو خود کبھی ذہنی طور پر صحت مند نہ رہا ہو۔ وزیر پانی و بجلی اس کو بنایا جاتا تھا جو پہلے کبھی کھیتوں میں پانی کا نلکا بند کرنے اور بجلی کی موثر کا سوئچ آف کرنے پر معمور تھا۔ لہذا جب تک وزیر رہا اپنی عادت کے مطابق یہی کرتا رہا۔ ساری عوام کے لئے کبھی پانی بند اور کبھی بجلی بند یہ تھا ہماری حکومت کا دھانچہ جو ہمیشہ ڈھانچہ ہی رہا۔ اس پر کبھی گوشت نا چڑھا۔ اکبر بادشاہ کے تخت نشین ہوتے ہی فتوحات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ 1556ءمیں دہلی، آگرہ، پنجاب، گوالیات، اجمیر اور جون پور 1562ءمیں مالوہ، 1564ءمیں گونددانہ، 1566 میں چتوڑ، 1569 میں رنتھبور، 1572 میں گجرات، 1576 میں بنگال، 1586 میں کابل، کشمیر، سندھ، 1592 میں اڑیسہ، 1595 میں قندھار پھر احمد نگر، اسیر گڑھ، اور دکن کے علاقے اکبر کی سلطنت بنگال سے افغانستان اور کشمیر سے دکن تک پھیلی ہوئی تھی اور آج یہ حال ہے کہ ایک کشمیر آزاد نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کسی ملک میں لوگ گندگی پھیلاتے ہیں، جگہ جگہ کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں تو وہ لوگ خراب نہیں ہیں یا جاہل نہیں ہیں۔ وہ اپنی فطرات کے مطابق صحیح کررہے ہیں۔ یہ ریاست کی نا اہلی ہے۔ بدعنوانی، نا انصافی ہو رہی ہے، لوٹ مار، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ ان سب کی ذمہ دار ریاست ہوتی ہے۔ عام لوگ ذمہ دار نہیں ہیں وہ اس لئے کررہے ہیں کہ ان کو اس کا موقعہ دیا جارہا ہے۔ ہم حکومت کی بجائے اپنے لوگوں کو ہی برا بھلا کہنے لگتے ہیں اور مغرب کے لوگوں کی واہ واہ کرتے رہتے ہیں کیوں کہ مغرب کی حقیقت سے نا واقف ہیں۔
اکثر بندر یا بھالو کا تماشا دیکھا ہو گا۔ بندر کے گلے میں رسی ہوتی ہے اور بندر نچانے والے کے ہاتھ میں چھڑی ہوتی ہے۔ بندر چھڑی کے اشارے پر وہی کچھ کرتا ہے جو اس کا مالک کہتا ہے، اسی طرح بھالو ہے اور اسے اس وقت تک کھانا نہیں ملتا جب تک وہ چھڑی کے ساتھ ساتھ اپنا پورا کام نہ کرے۔
مغربی اقوام کی مثال اسی بندر اور بھالو جیسی ہے ان کو چاروں طرف سے قانون نے ایسا جکڑا ہوا ہے کہ یہ اس کے اشارے پر چلتے رہتے ہیں اور ہمیں بہت مہذب، قانون پسند اور ایمان دار نظر آتے ہیں جب کہ ریاست نے شروع سے ہی دائرے بنا کر انہیں قید کر دیا ہے۔ چاروں طرف چھڑیاں ہیں جب تک طریقے سے چلتے رہو گے، چھا کھانے کو ملے گا، اور گھومو پھرو مزے کرو، لیکن تمیز کے دائرے میں رہو، ورنہ چھڑی پڑے گی۔ یہ ریاست کا کام ہے کہ کیسا جانور کی طرح بھی کوئی انسان ہو تو اسے کس طرح قابو میں رکھنا ہے اور مغرب نے یہ سب کیا ہوا ہے ورنہ مغرب سے زیادہ وحشت یقین کریں کہیں بھی نہ ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں