تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 521

ضیاءکا پاکستان اور مودی کا بھارت

برصغیر کے تقریباً دو ارب انسان اپنے اپنے ملکوں کی آزادی کے جشن یکساں جوش و خروش سے ہر سال مناتے ہیں۔ ہندوستان کی آزادی کا دن 15 اگست سمجھا جاتا ہے اور پاکستان کو کہتے ہیں کہ 14 اگست کو آزادی حاصل ہوئی مگر دونوں ملکوں کے عوام کی اکثریت غربت سے آزادی حاصل نہیں کر پائی۔ پچھلے دنوں یہ بھی بحث ہوتی رہی کہ ہندوستان اور پاکستان نے اپنی اپنی آزادی کے بعد سے کیا کھویا اور کیا پایا۔ پاکستان کی بہتر سال کی آزادی کے دوران پاکستانی قوم نے ضیاءازم کھویا اور ہندوستان نے مودی ازم پایا۔ پاکستان کے عوام پر ایک لعنت ضیاءکے نام سے مسلط ہو گئی تھی جس کا عوام سے دور دور تک تعلق نہیں تھا۔ جب کہ ہندوستان کے عوام نے بھاری اکثریت سے نریندر مودی کے نظریہ کو قبول کرکے پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت کے ذریعہ برصغیر کے عوام پر مسلط کیا۔
نریندر مودی اور ضیاءالحق کا موازنہ کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ ان دونوں کے طرز فکر سے برصغیر کے عوام کو کس قدر خوفناک نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ ان دونوں طبقہ فکر کی وجہ سے برصغیر کا وہ علاقہ جو دنیا بھر امن و آشتی اور رنگ برنگے کلچر کی وجہ سے پہچانا جاتا رہا ہے وہ اب ان دونوں ملکوں کے حکمراں کی وجہ سے انتہا پسندی کا مرکز بنتا جارہا ہے۔ 19 ویں صدی میں جہاں کے عوام جو ایک عرصہ تک بیرونی حکمرانوں کی وجہ سے زیر تسلط رہے جس کی وجہ سے وہ غربت، بدحالی، بھوک اور افلاس کی وجہ سے غربت کی لکیر سے نیچے سے نیچے کی طرف گرتے چلے گئی۔ اگر نریندر مودی کے نظریہ کا تجزیہ کیا جائے تو وہ بھی اس ہی طرز کا تھا جیسا ضیاءالحق کا نظریہ ضرورت تھا جس میں عوام کو مذہب کا نام لے کر انتہا پسندی کی طرف راغب کیا۔ یہی ہی وجہ ہے کہ پاکستان ضیاءکے بعد کا مختلف پاکستان بن گیا اس ہی طرح نریندری مودی کا بھارت نہرو اور گاندھی کے بھارت سے بالکل مختلف ہے۔
پاکستان کے عوام کی اکثریت ضیاءالحق کے نظریات سے مخالف نظریہ پر کاربند تھی، یعنی ضیاءکے نظریہ پر یقین رکھنے والے لوگ اقلیت میں تھے مگر اقتدار ضیاءکے ہاتھ بہت مضبوطی سے قائم رہا۔ جب کہ نریندری مودی کے مخالف اقلیت میں ہونے کے باوجود اس کی بھرپور مخالفت کرتے رہے ہیں۔ ضیاءالحق اپنے وقت میں اس قدر طاقتور تھا کہ اس کو اقتدار سے الگ کرنے کی کسی بھی طبقے میں جرات نہیں تھی۔ فوج کا بھرپور ساتھ اس کو قوت بہم پہنچاتا رہا۔ یا اس نے فوج کو بڑی بے دردی سے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور حکمراں طبقہ اسرافیہ ضیاءالحق کی سربراہی ہی میں اپنے مخالفین کو سرنگوں کرنے میں کافی عرصہ تک کامیاب رہا۔ ضیاءالحق نے بڑی طاقتوں کو بھی اپنے مقاصد میں بھرپور انداز میں استعمال کیا ان کی مدد سے خطے میں ایک ایسا ماحول پیدا کردیا کہ علاقہ کشت و خون بہانے کا بہت بڑا مرکز بن گیا جس کی وجہ سے بعد میں جا کر القاعدہ کی بنیاد رکھی گئی۔ ان بڑی طاقتوں نے بھی ضیاءالحق کی اس ہی طرح مدد کی جس طرح اب نریندری مودی کا کھل کر ساتھ دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نریندری مودی کشمیر میں وہ ہی کارروائیاں کررہا ہے جس طرح ضیاءنے افغانستان میں بڑی طاقتوں کی مدد سے اس خطے کو جنگ کا میدان بنا کر دنیا بھر سے مجاہدین کے نام سے جنگجو جمع کئے ، بعد میں وہی جنگو پورے علاقے میں طاقتور ہوتے چلے گئے، وہ افغانستان سے باہر نکل کر امریکہ، یورپ اور دیگر ملکوں میں بھی اپنی جنگجوانہ کارروائیوں سے پوری دنیا کے امن کے لئے خطرہ بن گئے، بڑی طاقتوں کو جب ہوش آیا تو پانی اتنا سر سے اونچا ہو چکا تھا کہ انتہا پسندی کی لہر سے دنیا بھر کا کوئی ملک بھی محفوظ نہ رہ سکا اور اب ضیاءکا دور ختم ہوئے تقریباً 30 سال بیت چکے ہیں مگر اس کے اثرات اب تک نہ صرف قائم و دائم ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ قوت بھی حاصل کرتے جارہے ہیں۔ القاعدہ کے بعد داعش، آئی ایس، آئی ایس اپنی پوری قوت سے مختلف ملکوں میں کارروائیاں بڑی بے دردی سے کررہی ہیں۔ افریقہ میں الشباب کے نام سے دہشت گردی ہو رہی ہے۔
اب اس ہی طرح نریندر مودی نے جس طرح کی انتہا پسندی کے طریقے اختیار کئے ہیں وہ ضیاءالحق کے نظریہ سے بھی زیادہ نیا بھر کے لئے مہلک ثابت ہوں گے کیونکہ ہندوستان کا ایک بڑا طبقہ اس کا ہم نوا بن گیا ہے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ جس راستہ پر چل رہا ہے اس میں اس کو بالادستی حاصل ہو جائے گی جس کے ذریعہ وہ ہندوستان اس طرح کا طرز حکمرانی قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو اشوک کے زمانے میں رائج تھی لیکن اشوک کے زمانے میں ہندوستان میں جس طرح سے عام انسان امن و سکون سے اپنی زندگیاں بسر کرتا رہا ہے اب اس دور میں ممکن نہیں۔ اس طرح بھارت کے اندر مختلف عناصر اس طرح سے وجود میں آتے چلے جائیں گے جس طرح ضیاءکے دور میں القاعدہ، داعش، الشباب بن گئے ہیں جو بعد میں کسی کے قابو میں نہ آشکے شاید یہ ہندو لشکر پاکستان یا ہمسایہ ملکوں کو تو نقصان پہنچا سکیں لیکن ہندوستان کے اندر بھی ہندو لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ جیسے ہندو مذہبی گروپ بھی جو کہ ہندوﺅں آر ایس ایس راشٹریہ سیوک سنگھ، باجن سنگھ جیسے گروپ جب اتنی ہی قوت حاصل کر لیں گے تو وہ پوری سوسائٹی کو چیلنج کرکے انہیں بے بس کردیں گے جیسا کہ پاکستان میں ان مذہبی انتہا پسند تنظیموں نے پاکستانی معاشرے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
شروع میں وہ نسبتاً کم طاقتور طبقوں پر بالادستی حاصل کرتے رہے پھر انہوں نے فوج جیسے طاقتور ترین ادارے پر بھی حملہ کرنے شروع کردیئے۔ لیکن پاکستان کی فوج اپنے ملک کے سائز کے اعتبار سے زیادہ طاقتور تھی جو کہ برصغیر کی تقسیم کے حوالے سے تقریباً برصغیر کی فوج کا تقریباً 37 فیصد حصہ تھی جب کہ پورے پاکستان کا علاقہ اور عوام برصغیر کا تقریباً 16 فیصد تھا اس جیسی طاقتور فوج ان عناصر کو سوفیصد ختم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی ہے اس کے برخلاف ہندوستان بہت بڑا علاقہ ہے جس کے اعتبار سے اس کی سیکیورٹی فورس نسبتاً بہت کم زور ہے اور اس کے وسائل اس سے بھی کم ہیں ایسے حالات میں جیسے کہ پاکستان میں گزشتہ تیس سال عوام تباہی کے مناظر دیکھ کر گزار چکے ہیں اس طرح کے حالات اگر پیدا ہوئے تو ہندوستان کوئی قوت ایسی باقی نہیں رہے گی جو ان پر قابو پا سکے اس طرح ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے کہ بھارت میں مختلف گروپ اس ہی طرح قائم ہو جائیں جس طرح افغانستان، عراق، لیبیا، افغانستان، میں مختلف وار لارڈ اپنے اپنے علاقوں میں اپنے مخالفین کو اپنے اپنے راستے سے ہٹا کر اپنی قوت کو مضبوط کررہے ہیں۔ ہندوستان میں مودی نے ہندو مذہبی تنظیموں اس ہی طرح کھلا چھوڑ دیا جس طرح پاکستان میں ضیاءالحق کے مختلف جہادی تنظیموں کو طاقتور بنایا جنہوں نے بعد میں ٹی ٹی پی اور لشکر جھنگوی تنظیموں نے آگے جا کر القاعدہ اور داعش جیسی دہشت گرد گروپ بنائے۔
آج نریندری مودی چین کے مقابلہ میں بھارت کو پیش کرکے امریکہ اور یورپ کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ مگر اس کا انجام ضیاءالحق اور اس کے بعد کے پاکستان کی تباہ کن صورت کی طرح بھارت کو بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان نے ایک طاقتور فوج کی مدد سے اب ان قوتوں پر کسی حد تک تو قابو پالیا ہے مگر ہندوستان کی ہندو انتہا پسند تنظیموں کو بھی جب اتنی ہی طاقت حاصل ہو گی تو ان کا مقابلہ بھارت کی فوج اس طرح سے نہیں کر پائے گی جس طرح عراق کی فوج جو خطے کی طاقتور ترین فوج سمجھی جاتی تھی وہ بعد میں مختلف گروپوں میں بٹ کر آپس میں دست و گریبان ہو گئی کیونکہ بھارتی فوج میں بھی مختلف زبانیں بولنے والے افراد شامل ہیں۔ اس لئے نریندری مودی راستہ کو اختیار نہ کرکے بھارت کو تباہی اور بربادی سے بچایا جا سکے جس کا پاکستان ضیاءکی پالیسیوں کی وجہ سے تباہی کا شکار ہوا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں