Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 520

طوطا اور کبوتر

آج بیٹھے بٹھائے اچانک پھر طوطا اور کبوتر یاد آگئے۔ کتنا فرق ہے ان دونوں پرندوں میں۔ طوے کی نسبت سے ایک بات بہت مشہور ہے۔ ”طوطا چشم“، وجہ اس کی آنکھیں گھمانا تھی، لفظ طوطا چشم کا لفظ بیوفائی کے لئے استعمال ہونے لگا۔ طوطا بے وفا ہوتا ہے اگر پنجرہ کھلا رہ جائے فوراً اڑ جاتا ہے اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا اور کبھی واپس نہیں آتا جب کہ کبوتر دو سال بعد بھی اپنے مالک کو ڈھونڈتا ہوا آ جاتا ہے اور اپنی کابک میں جا کر سکون کا سانس لیتا ہے۔ اب سوچیں کہ آزادی کا متوالا کون ہے، طوطا یا کبوتر؟ میرا تو خیال ہے کہ طوطا آزادی پسند ہے اس لحاظ سے وہ واقعی عقل مند ہے کیوں کہ وہ آزادی کے معنی سے واقف ہے اسے علم ہے کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔ وہ صبح شام اپنے پنجرے میں ٹیں ٹیں چلاتا رہتا ہے کیوں کہ وہ اپنی قید پر احتجاج کررہا ہوتا ہے اور پنجرے سے نکلنے کی جدوجہد میں مصروف رہتا ہے۔ وہ انسانوں کی بولی بھی سیکھ لیتا ہے اور ان کی چالاکیوں کا بھی علم ہو جاتا ہے جب بھی اسے آزادی ملتی ہے وہ جا کر کسی اونچے درخت پر اپنا آشیانہ بناتا ہے۔ ٹیں ٹیں کرکے آزادی کے گیت گاتا ہے اور اپنے بچے آزادی کی فضاءمیں پالتا ہے اور کبوتر وہ انسان کی بولی کیا سیکھے اس کی اپنی آواز مشکل سے نکلتی ہے۔ وہ صرف غٹرغوں کرتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب کبوتری کی منت سماجت کررہا ہوتا ہے۔ وہ غلامانہ ذہنیت کا ہوتا ہے اور غلام ہی رہنا پسند کرتا ہے۔ آزاد ہو بھی جائے تو جیسے ہی موقعہ ملتا ہے اپنی کابک میں واپس آ جاتا ہے۔ اسے ہاتھوں میں اٹھاﺅ تو چپ چاپ ہاتھوں میں دبا رہتا ہے۔ کوبتر کا ماک اس کے پر کاٹ کر کچھ دن اسے غلامی کا عادی بناتا ہے۔ کبوتر کو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ اس کا مالک ہے اور یہ اس کی کابل ہے اور یہی اس کو کھانے پینے کو دے گا عموماً کبوتر کو اس کے بچپن میں ہی لایا جاتا ہے ورنہ پر آنے کے بعد پرانا کوبتر اپنے پرانے مالک کے پاس بھاگ جاتا ہے۔ یہ بچہ کبوتر پر آجانے کے بعد اونچی اونچی اڑان اڑتا ہے لیکن اس کے باوجود آزادی کے بارے میں نہیں سوچتا ہے اور شام کو واپس آکر چپ چاپ اپنی کابک میں دبک کر سو جاتا ہے کیونکہ اسے آزادی کی نعمت کا علم ہی نہیں ہے۔
ہمارا ملک جب بننے جارہا تھا تو ہم میں بھی کچھ لوگ کبوتر کی طرح تھے اور انہوں نے آزادی کی مخالفت کی تھی۔ کبوتر جیسے ان لوگوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے مخالفت تو کی تھی لیکن آزادی مل جانے کے بعد اپنی اپنی سیاسی پارٹیاں بھی بنائیں اور حکومت کرنے کے شوقین لوگوں میں شامل ہو گئے اور غلامانہ ذہنیت کے وہ لوگ بھی تھے جو غلامی کی زندگی چھوڑنے پر آج تک رو رہے ہیں۔ اٹھتے بیٹھتے کہتے ہیں کہ پاکستان غلط بنا، ان کی ان باتوں کی وجہ سے بہت سے دوسرے لوگ ان کے ہم خیال ہو گئے ہیں اور وہ لوگ جو پاکستان بنانے کے لئے رو رہے تھے پاکستان بننے پر بھی رو رہے ہیں۔ پاکستان کیوں بنا، اگر بن بھی گیا تو تقسیم غلط ہوئی ہے۔ اس طرح کی بے شمار شکایات ہیں جو گزشتہ 73 سال سے سنی جارہی ہیں۔ ایک چھوٹے قد کا آدمی ایک درخت کے نیچے کھڑا رو رہا تھا۔ ایک لمبے قد کے آدمی کا وہاں سے گزر ہوا اس نے پوچھا بھائی کیا معاملہ ہے تو چھوٹے قد والے نے روتے ہوئے کہا، بھائی میں دو دن سے بھوکا ہوں، میری حالت بری ہے اب یہ سیب کا درخت نظر آیا مگر میرا ہاتھ نہیں جا رہا ہے۔ میں سیب نہیں توڑ سکتا، پتھر بھی مارے لیکن سیب نہیں گرا، تمہارا قد لمبا ہے ذرا تم کوشش کرو، میں تمہارا یہ احسان ساری زندگی نہیں بھولوں گا۔ لمبے نے کہا دیکھو چھوٹے بھائی میرا ہاتھ بہت دور تک نہیں جا سکتا ہاں میں قریب کے ایک دو سیب تور سکتا ہوں، چھوٹے نے کہا بھائی اگر تم پتے ہی توڑ کر دے دو تو میں کھا لوں گا۔ لمبے آدمی نے بڑی مشکل سے دو سیب توڑ کر چھوٹے کو دیئے۔ چھوٹا بہت خوش ہوا، اس کا بہت شکریہ ادا کیا اور سیبوں پر پل پڑا۔ لمبا آدمی وہاں سے چلا گیا، چھوٹا تھوڑی دیر تو درخت کے نیچے سستاتا اور پھر کھڑے ہو کر لمبے آدمی کو یاد کرکے گالیاں دینے لگا۔ لوگوں نے پوچھا بھائی کیا ہو گیا، تو کہنے لگا اس آدمی نے مجھے کھٹے اور بدمزہ سیب توڑ کر دیئے اگر وہ چاہتا تو اچھے سیب بھی توڑ سکتا تھا۔ یہی ہمارا حال ہے آزادی ملنے کے بعد کچھ سکون کا سانس لینے کے بعد ہم ساری قربانیاں بھول چکے ہیں۔ تحریک پاکستان کی جدوجہد کا عرصہ بہت مختصر ہے، کوئی لمبی پلاننگ نہیں تھی بلکہ حالات کا سمجھوتہ ہی نظر آتا ہے۔ ورنہ دنیا میں آزادی کی سو سو سال پرانی تحریکیں ہیں۔ تحریک آزادی کے وقت پاکستان کا کوئی تصور نہیں تھا صرف انگریزوں سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا جس میں تمام مذاہب تمام قومیں شامل تھیں۔ 1930ءسے پہلے پاکستان کا کوئی تصور نہیں تھا اور تصور علامہ اقبال نے پیش کیا تھا ورنہ علامہ اقبال کی حیثیت صرف ایک شاعر کی ہی تک ہوتی اور ان کا نام پاکستان کے حوالے سے نہیں ہوتا۔ 1933ءمیں چوہدری رحمت علی نے ایک پمفلٹ بنایا اور اس میں یہ کہا گیا کہ اگر ہم نے پاکستان کے لئے ابھی قدم نا اٹھایا تو پھر یہ کام کبھی نہیں ہو سکتا۔ یعنی 1933ءسے 1947ءتک کا 14 سال کا عرصہ ہے اور اس میں پورا ایک ملک وجود میں آگیا جو کہ مذاق نہیں ہے۔ ایم کیو ایم 35 سال کی تحریک میں کوٹہ سسٹم ختم نہیں کراسکی جب بھی کوئی نئی چیز ایجاد ہوتی ہے تو شروع میں بے ڈھنگی نظر آتی ہے لیکن یہ بعد والوں کا کام ہوتا ہے کہ اس پر محنت کرکے اسے خوبصورت بنائیں۔ آج استعمال ہونے والی بے شمار چیزیں سیل فون کی طرح اس کی مثال ہیں، ہمارے محلے کے ایک بزرگ جب بھی کسی پرندے کو پنجرے میں دیکھتے تو بے چین ہو جاتے تھے اور منہ مانگی قیمت دے کر اسے لے لیتے اور رہا کر دیتے تھے اور بہت خوش ہوتے تھے۔ پوچھنے پر کہتے تھے تم لوگ کیا جانو آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔ ایک دن گھرکے باہر کرسی ڈالے بیٹھے تھے، دیکھا کہ ایک آدمی پنجرہ لے جا رہا ہے جس میں ایک چڑیا بند ہے۔ وہ تڑپ کر اٹھے اور اس آدمی کو روک لیا۔ وہ نا نا کرتا رہا لیکن انہوں نے اچھی خاصی رقم دے کر چڑیا کو آزاد کردیا جو پھدک کر ایک درخت کی شاخ پر بیٹھ گئی لیکن درخت پر موجود دوسرے پرندوں نے اسے قبول نا کیا اور اسے چونچیں مار کر جگانے لگے۔ چاچا جی نے سوچا دیکھیں تو یہ کہاں جاتی ہے، چڑیا ایک درخت سے دوسرے درخت پر جاتی لیکن پرندے اسے آنے نہیں دے رہے تھے۔ وہ کوئی دانہ دنکا تلاش کرتی تو دوسری چڑکا اس سے چھین لیتیں دوسرے بڑے پرندوں اور کوﺅں سے بھی جان بچانا مشکل ہو رہا تھا۔ چاچاجی کو بڑا افسوس ہوا کہ ناحق چڑیا کو آزاد کیا یہ تو اور مشکل میں پھنس گئی۔ پنجرے میں کھانا پینا مل رہا تھا، سکون سے سو رہی تھی، کافی دن بعد میری ملاقات ہوئی تو وہ اس چڑیا کو بھولے نہیں تھے کہ بے چاری کا کیا حشر ہوا ہوگا۔ میں نے کہا میرا خیال ہے اس چڑیا کو آزادی کے بعد بہت تکلیفیں اٹھانا پڑی ہوں گی۔ اس نے بہت محنت کی ہوگی۔ اسے پیٹ کی قربانی بھی دینا پڑی ہو گی لیکن اس کے بچے خالص اور آزاد فضا میں پیدا ہوئے ہوں گے جب بھی کسی آزادی کے لئے یا ملک بنانے کے لئے قربانیاں دی جاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ یہ قربانیاں اسی حد تک تھیں بلکہ اس ملک کو آگے بڑھانے کے لئے ترقی کے لئے مسلسل دو تین نسلوں کو قربانی دینا پڑتی ہے۔ پاکستان جن حالات، جس طریقے سے اور جس مختصر سے عرصے میں بنا اس وقت مسلمانوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا یا تو طوطے کی طرح آزاد ہو جاتے یا پھر کبوتر کی طرح اپنی کابک میں بند رہتے۔ وقت کا تقاضا یہی تھا کہ آزادی کا راستہ چنا گیا۔ ہم نے نوجوان نسل کو آزادی کی صحیح تصویر پیش نہیں کی۔ صرف بنانے والوں کی غلطیاں تلاش کرتے رہے۔ مفاد پرستوں نے علاقے، زبان اور قومیت کی بناءپر لوگوں کو تقسیم کیا۔ خود غریب ہی رہے اور لیڈروں کو مالا مال کردیا۔ ہمارے ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے اگر کمی ہے تو ایمان دار قیادت کی اور ایمان دار عوام کی کمی ہے۔ غلطیاں اگر ہوئی ہیں تو ان لوگوں سے ہوئی ہیں جو 73 سال سے نا اہل ہونے کی وجہ سے پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور صرف ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں۔ کوئی بھی شخص تباہی کی ذمہ داری اپنے سر نہیں لیتا اور اگر اتفاق سے کوئی اچھا کام ہو جائے تو ہر آدمی آگے آ جاتا ہے۔ اپنے کرتوت مٹانے کے لئے ملک کی دولت ٹھکانے لگانے کے بعد یہ اور ان کے بچے گیت گاتے پھرتے ہیں کہ پاکستان بنا ہی غلط ہے۔ کبوتر اور طوطے جیسے یہ دو طرح کے لوگ اکھٹا تو رہتے ہیں لیکن غلامانہ ذہنیت کے کبوت جیسے لوگ نے پاکستان کے خلاف جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ کبوتر ساری زندگی غلامی میں رہنا چاہتے ہیں، اپنے علاقائی لیڈروں کی غلامی میں اپنی زبان کے لیڈر کی غلامی میں۔ طوطوں کو چاہئے کہ وہ ان کبوتروں کے سروں پر ٹھونگیں مار کر احساس دلائیں کہ وہ ایک آزاد قوم ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں