بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 127

عارف شیخ کے ”ہم ایوارڈز“ کے حوالہ سے کینیڈا ون ٹی وی پر کئے گئے تجزیہ کا تنقیدی جائزہ

گزشتہ دنوں شہر کی ایک کاروباری شخصیت عارف شیخ نے مذکورہ پروگرام کے حوالہ سے اپنی دانست میں ایک بہت ہی انصاف پر مبنی تجزیہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ انہوں نے چند نکات پر تفصیلی روشنی ڈالی جس میں کہیں تو وہ حق بجانب تھے مگر کہیں انہوں نے کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان تمام افراد، کمپنیوں اور چینلز کی مارکیٹنگ کرنے کی کوشش کی جہاں وہ خود ایک گھنٹہ کا پروگرام کرتے ہیں۔ انہوں نے ہم ایوارڈز کے ریڈ کارپٹ کے طریقہ کار کے بارے میں تربیت دینے کی کوشش کرتے ہوئے کئی لوگوں کی تربیت پر سوالیہ نشان لگایا۔ یقیناً وہ اس بات پر حق بجانب ہیں کہ باہر سے آئے مہمانوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا گیا کسی طور پر مناسب نہیں تھا بلکہ بدتمیزی کے زمرے میں آتا ہے مگر یہاں میرا ایک سوال خود عارف شیخ سے یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ یہ بتائیں کہ کس حیثیت میں انہوں نے اس پروگرام میں یہ مسئلہ اٹھایا جب کہ ان کے کہنے کے مطابق ریڈ کارپٹ پر ایسے لوگ موجود تھے جو صرف آدھے یا ایک گھنٹہ کا پروگرام کسی چینل پر کرتے ہیں۔ یہاں تو وہ خود کو اس تنقید کی زد میں لے آئے کہ ان سے یہ پوچھا جانا چاہئے کہ وہ کس حیثیت میں اور کیوں ریڈ کارپٹ پر موجود تھے؟
یاد رہے کہ DML نے ”ہم ایوارڈز“ سے قبل دو میٹنگز کیں، ایک Social Media Influncer گروپ کی اور ایک ٹورنٹو کے لوکل پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی۔ اس دوسری میٹنگ میں بھی عارف شیخ بذات خود موجود تھے جب کہ جن دو چینلز کینیڈا ون ٹی وی اور ٹورنٹو 360 کا ذکر انہوں نے کیا جنہیں وہ اصل میں میڈیا جانتے اور مانتے ہیں ان کے کئی ایک نمائندے نہ صرف اس میٹنگ میں موجود تھے۔ عارف شیخ کو معلوم ہونا چاہئے کہ شہر کی ہر تقریبات میں کم از کم آدھے میڈیا کے افراد میں اب انہی دو چینلز کے نمائندے بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں جب کہ یہی دو چینلز ہیں کہ جن کی وجہ سے اکثر تقریبات گالم گلوچ اور غیر اخلاقی حرکات کا شکار ہوتی ہیں مگر شاید عارف شیخ کی نظریں کمزور ہیں یا پھر انہوں نے اپنے چہرے پر تعصب کی عینک لگا رکھی ہے یا یوں کہیے کہ ان دو چینلز نے انہیں دلالی کا سرٹیفکیٹ دیا ہوا ہے کہ انہیں اس بات کی اجازت مل گئی کہ وہ ان کے میڈیم پر آکر کمیونٹی کے تمام معتبرین کے گریبانوں پر ہاتھ ڈال دیں جنہوں نے نہ جانے کس دیہات یا چک میں زندگی گزاری ہے کہ وہ Manners نہیں جانتے۔
ہم عارف شیخ کی اس بات سے قطعی طور پر متفق ہیں کہ ریڈکارپٹ پر جو کچھ ہوا وہ قابل مذمت ہے مگر اس تمام گڑبڑ کا ذمہ دار کون ہے؟
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ DML جس کے روح رواں ضیاءمشہدی ہیں انہوں نے اپنی دانست میں نہایت سمجھداری کے ساتھ چند گنے چنے میڈیا ہاﺅسز کو ”ہم ٹی وی“ کے دفتر واقع مسی ساگا میں بلایا۔ جس میں ہم ایوارڈز کے بارے میں تمام اطلاعات شیئر کی گئیں۔
DML کی نمائندگی ایک نہایت معتبر خاتون ثمینہ طلعت نے کی جن کا تعلق بھی ٹورانٹو سے چلنے والے ایک ریڈیو، ٹی وی چینل سے ہے۔ بریفنگ میں DML کے CEO ضیاءمشہدی، مارکیٹنگ انچارج بلال مسعود اور دیگر ٹیکنیکل اسٹاف موجود تھا۔ یہاں بھی چند ایک ایسے افراد جن کا میڈیا سے کوئی تعلق نہیں مگر وہاں موجود تھے۔ یہ افراد نہ صرف موجود تھے بلکہ ٹورنٹو ہلٹن ہوٹل میں بھی رات دن مصروف عمل رہے۔ جہاں پاکستان سے آئے تمام فنکاروں کو ٹھہرایا گیا تھا۔
عارف شیخ سے نہایت مودبانہ سوال ہے کہ وہ ذرا یہ بتائیں کہ جس DML نے انتہائی صاف و شفاف طریقہ سے اور نہایت سختی سے انتظام کو بہتر رکھنے پر عمل کیا تو وہ تمام لوگ کہاں سے ریڈکارپٹ پر پہنچے جن کا میڈیا سے دور دور تعلق نہ تھا یا پھر ایک چینل کے کئی ایک اینکرز اور ایک گھنٹہ کا پروگرام کرنے والے عارف شیخ خود بھی شامل ہیں کیسے ریڈ کارپٹ پر پہنچے اور کیسے اپنے چند میڈیا کے دوستوں کے ہمراہ وہ ریڈکارپٹ اور فلور پر موجود تھے؟ ان کا یہ کہنا کہ شہر میں صرف دو چینلز ہیں جو باقاعدہ کام کررہے ہیں۔ کمیونٹی کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے مترادف ہے۔ افسوس یہ ہے کہ انہوں نے بہت اچھا اصلاحی پروگرام پیش کرنے کی کوشش تو کی مگر وہ اس پروگرام سے انصاف نہ کرسکے کیونکہ میں ایک بار پھر کہوں گا کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے تعصب کی عینک نہیں اتاری وگرنہ ان کی اس کوشش کو ضرور سراہا جاتا۔
یہاں میں یہ ضرور کہوں گا کہ جن دو چینلز کا انہوں نے ذکر کیا وہ یقیناً بہت اچھا کام کررہے ہیں مگر یہ نہیں کہا جا سکتا صرف وہی کام کررہے ہیں۔ اچھا تو یہ ہوتا کہ وہ کسی چینل کا نام نہ لیتے اور اگر نام لینا ان کی مجبوری تھی تو انہیں سب چینلز کا نام لینا چاہئے تھا لیکن شاید یہاں وقت کی کمی آڑے آجاتی کیونکہ انہوں نے تو دو چینلز کے علاوہ اور تمام لوگوں کو آڑے ہاتھوں لینے کی قسم کھائی تھی۔ میں عارف شیخ کی اطلاع اور تصحیح کے لئے عرض کردوں کہ محترمہ عارفہ مظفر کا ریڈیو ساز و آواز اور چینل EAWAZ شہر میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے جس کا ذکر ضروری تھا پھر ثمینہ جبیں یقیناً میڈیا میں زیادہ پرانی نہیں مگر انہوں نے نہایت محنت کے ساتھ اپنے چینل AWAZ Entertainment کا لوہا منوایا ہے اور ان کا پروگرام ”تکرار“ کمیونٹی کی جانب سے بہت سراہا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ طاہر اسلم گورا کا چینل ”ٹیگ ٹی وی“ بھی نیا نہیں۔ محمد معین کا چینل ”بول“ بھی کل پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ تمام لوگ الیکٹرانک میڈیا کے Pioneers میں شمار ہوتے ہیں۔ یہاں اگر Z9 میڈیا کے شاہ جی کا ذکر نہ کریں تو زیادتی ہو گی کیونکہ میڈیا کا بیک گراﺅنڈ نہ ہونے کے باوجود وہ اپنے چینل کو 24/7 نہایت پروفیشنل طریقے سے چلا رہے ہیں۔
عارف شیخ جن کے دوست ہیں ان کے نمک کا حق ضرور ادا کریں کیونکہ انسان کو نمک حرام نہیں ہونا چاہئے اور ہمیں معلوم ہے کہ عارف شیخ نمک حرام نہیں ہیں مگر شاید وہ کچھ بھٹک گئے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ وہ صبح کے بھولے ہیں، مگر شام تک گھر آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہوگا۔ وہ DML سے یہ سوال ضرور کریں کہ کیسے اور کیونکر وہ تمام لوگ جنہوں نے ریڈکارپٹ کو ثبوتاژ کیا وہاں پہنچے۔ آیا کہ وہ سب اقربا پروری کے نتیجہ میں وہاں پہنچے یا پھر ان کے ریڈ کارپٹ پر آنے کے لئے بھاری رقوم وصول کی گئیں؟ عارف شیخ کا یہ کہنا بجا ہے کہ سوشل میڈیا کے نمائندے فنکاروں کے نام تک نہیں جانتے تو بغیر تیاری کے وہاں کیوں موجود تھے۔ اس معاملہ پر ضرور بات کی جانا چاہئے مگر یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ باقی لوگ وہاں کیسے پہنچے؟ والنٹیئرز کے نام آخر وقت تک کون نام ڈلواتا رہا اور کون کون سفارشیں کرتا رہا اور کس نے DML کو میڈیا کے دعوت ناموں کی بابت بریفنگ دی؟
وہ کون سے میڈیا ہاﺅسز کے مالکان تھے جنہوں نے DML کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر دعوت ناموں میں آخر تک کانٹ چھانٹ جاری رکھی؟ وہ کون تھا جس نے نسل اور زبان کی بنیاد پر میڈیا کے نمائندوں میں تفریق پیدا کی؟ دو چینلز کے مالکان کے علاوہ کیا عارف شیخ بتانا پسند کریں گے کہ ان کا اور میاں ادریس کے پروموٹر رانا کا کیا رول تھا؟ ان تمام سوالات کی وضاحت نہایت ضروری ہے اور میرا عارف شیخ کو مشورہ ہے کہ وہ ایک پروگرام اور کریں اور اپنی پوزیشن واضح کریں۔ کیونکہ انہوں نے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ آخر میں، میں عارف شیخ سے یہی کہوں گا کہ کمیونٹی آپ کو نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور آپ سے توقع کرتی ہے کہ آپ اس معاملہ پر انصاف کے تقاضوں کو جنہیں آپ نے اپنے پروگرام میں نظر انداز کیا، مدنظر رکھیں گے، ہمیں آپ کے اگلے پروگرام کا انتظار رہے گا۔
خوب ہے خوب تر ہے خوب ترین ۔
تجزیے اس طرح نہیں ہوتے
بات بین السطور ہوتی ہے ۔
شعر میں حاشئیے نہیں ہوتے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں