تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 410

عدلیہ بریگیڈ

پاکستان کی عدالتی تاریخ جسٹس منیر سے شروع ہو کر وقار سیٹھ تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان کا عدالتی نظام جس کو بنچ اور بار کا نام دیا جاتا ہے اب ننگا ہو کر دنیا کے سامنے آگیا ہے۔ پاکستان میں عام لوگ فوج کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیتے ہیں مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی ہر دور میں معاون اور مددگار پاکستان کی عدلیہ ہی رہی ہے۔ موجودہ دور میں بھی جب عام افراد فوج کے جرنلوں کے کرتوتوں کی وجہ سے فوج کو الزام دیتے رہے ان کی توجہ فوج پر سے ہٹانے کے لئے پرویز مشرف کے خلاف عدلیہ کے فیصلے سے عوام نے فوج کی حمایت میں بے انتہا اضافہ کردیا۔ ماضی کی تحریکوں کے انجام فوج کی مداخلت کی صورت میں نکلتے رہے۔ فوج بھی کسی نہ کسی طرح اقتدار میں آتی رہی، ایوب خان کے خلاف تحریک میں یحییٰ خان اور قومی اتحاد کی تحریک جس کے قائد مفتی محمود، مولانا مودودی اور نواب زادہ نصر اللہ خان تھے، انجام ضیاءالحق کی صورت دہشت گردی، کلاشنکوف کلچر، علاقائی عصبیت، ڈرگ مافیا، امریکا اور روس کی جنگ کو افغانستان تک لانا اور پاکستان پر اس کے مہلک اثرات کا اب تک ظاہر ہونا۔ پھر پرویز مشرف کے خلاف تحریک اس کا انجام وہ جنگ جس کی ابتداءضیاءالحق نے کی اس جنگ کا پاکستان کے اندر تک آ جانا اور پاکستان کا براہ راست متاثر ہونا، زرداری، جیلانی اور پرویز اشرف جیسے بدعنوانوں کا اقتدار میں آ جانا جس کی وجہ سے عوام بھوک، افلاس، غربت، انتہا کو پہنچا۔ دہشت گردی، لاقانونیت کے عفریت کا ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا وہ جنگ جو مشرف نے اپنے ملک کے اندر آنے سے روکی ہوئی تھی اس جنگ کا پورے ملک تک پھیل جانا اور دہشت گردی کے اثرات تمام دنیا تک پہنچنا۔
مشرف کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہی تھا کہ ضیاءکی لائی ہوئی جنگ کو افغانستان تک محدود کرکے پاکستان کو بچاتا رہا جس کی وجہ سے صدر ابامہ نے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان پر ڈبل گیم کا الزام لگانا بھی شامل تھا۔
جب مشرف کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا تو ابتدائی طور پر اس میں سوسائٹی کے سنجیدہ طبقے شامل تھے، جو معاشرے میں مثبت تبدیلیوں کے خواہش مند تھے۔ مگر جلد ہی یہ تحریک ان استعماری طاقتوں نے ہائی جیک کرلی جو ایسے مواقعوں کی منتظر رہتی ہیں اور ملک کے اندر مخلص طبقے ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اس موقع پر مشرف کے پاس دو راستے تھے، ایک یہ کہ تمام ان طاقتوں کو فوج کی مدد سے کچل دے جو معصوم لوگوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کررہی تھی جس کے براہ راست اثرات معصوم عوام پر پڑتے جو کہ افغان جنگ سے بے حال تھی، دوسرا راستہ یہ تھا کہ خود سے مستعفی ہو کر اقتدار سے الگ ہو جاتے۔ مشرف نے دوسرا راستہ چنا اس نے عوام کی خاطر دوسروں کو اقتدار حوالے کردیا۔
پرویز مشرف گارڈ آف آنر حاصل کرکے اپنے ذاتی فارم ہاﺅس میں منتقل ہو گئے جو کہ اسلام آباد کے قریب ہی واقع تھا جہاں سے کچھ فاصلہ پر چیف جسٹس کا دفتر بھی تھا پرویز مشرف نے تقریباً دس ماہ اس فارم ہاﺅس میں گزارے پھر بیرون ممالک سے آنے والی لیکچرز کی دعوت پر بیرون ملک روانہ ہو گئے اور مختلف ممالک میں بھاری معاوضوں پر لیکچر دیتے رہے۔ اس دوران ملک میں استعماری طاقتوں کے نمائندے اقتدار میں رہے اور ملک تباہی کے دہانے تک پہنچ گیا۔ اس طرح وہ اپنی بھاری معاوضوں کو فراموش کرکے پاکستان کی طرف روانہ ہو گئے حالانکہ ان کی بیمار والدہ جن کی عمر پچانوے برس تھی اور وہ بہت بیمار تھیں۔
پروز مشرف جب پاکستان پہنچے تو سب سے پہلے شدت پسندوں کے مربی برگیڈ نے اعلان کیا کہ مشرف کے لئے ہمارے درجنوں بمبار تیار ہیں ہمارا خیال تھا کہ وہ جنونی کچھ معصوم بچوں کے جسموں پر بارودی جیکیٹیں پہنا کر مشرف کے گھر نما جیل کو اڑانے کی کوشش کریں گے۔ یا کورٹوں کے راستوں میں مشرف کی گاڑی کو بارود سے بھری گاڑی دے ماریں گے۔ مشرف کے جیل جانے کے بعد انہوں نے اس طریقہ پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا جس میں وہ زیادہ ماہر تھے اس طریقہ میں انہوں نے مشرف کو اغواءکرنے کا منصوبہ بنایا کیونکہ وہ پہلے دو طریقوں پر مشرف کے اقتدار کے زمانے میں عمل کرکے ناکام ہو چکے تھے۔ اپنے ساتھی بنوں جیل سے با آسانی اغواءیا چھڑا کر فرار ہو گئے تھے۔ اب کمانڈر مشرف سرکاری تحویل میں تھے اور اب ان کی خود کی سیکیورٹی کے بائے سرکاری سیکیورٹی میں یہ کام با آسانی ہو سکتا تھا ان کے خیال میں مشرف کو اب بے دست و پا کردیا گیا ہے اس میں ان کی وہ شدت شرپسندوں کے عدالتی ساتھی شوکت حسین صدیقی اپنے باس کے ساتھ بیت اللہ کا مددگار بنا ہوا ہے۔
شوکت حسین صدیقی خود بہت بڑا جہادی بنتا ہے اس نے مشرف کے دور حکومت کے انتخاب میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی طرف سے الیکشن لڑا اور شکست کھا کر زخمی سانپ بن گیا تھا کیونکہ مشرف نے سب کو سیٹیں بانٹی اس کا خیال تھا کہ اور اس جہادی کو محروم رکھا۔ بعد میں اس نے پنڈی بار کے صدر کے الیکشن کی تیاری شروع کردی جب ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو مارا تو یہ اس کا بڑا حامی بن گیا۔ ویڈیو کلپ اس بات کی گواہ ہیں کہ اس نے ممتاز قادری کو پھولوں کا گلدستہ عقیدت کے طور پر پیش کیا۔ ان ہی بنیادوں پر وہ پنڈی بار کونسل کا صدر بن گیا۔ یوں اس نے بار کونسل کے انتہا پسندوں کے لئے ونگ کی ذمہ داری بھی سنبھالی ایک طرف ان کالے کوٹوں والے عدالتی بھتہ خوروں کا لیڈر بن گیا تو بنچ کا چیف نے جو کہ خود بنچ میں انتہا پسندوں کی بھرپور ترجمانی کررہا تھا اس نے ان کالے کوٹوں والے عدالتی بھتہ خوروں کی نمائندگی کے لئے اس کو چنا اور پنڈی بنچ کا چیف بنا دیا کیونکہ اس میں وہ تمام صلاحیتیں تھیں جو یہ ان دونوں کاموں میں با آسانی اس کا مددگار معاون بن سکتا تھا کیونکہ ایک طرف یہ اپنے چیف کی طرح نمائشی قسم کے اقدامات ککرکے رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کر سکتا تھا، دوسری طرف اپنے چیف کو پاکستان کے واحد نجات دہندہ کے طور پر اجاگر کرتا تھا کیونکہ اس کو پاکستان کا واحد نجات دہندہ ثابت کرنا تھا اس لئے اس چیف کی جنگ ایک فوج کے چیف سے تھی جو کہ نجات ہندہ امکانی طور پر اس کے سامنے بن سکتا تھا دوسری طرف جو اپنے آپ کو پاکستان کا نجات دہندہ کے طور پر پیش کرتا جس میں اس کی معاونت میڈیا کا ایک گروپ کے دو ساتھی حامد میر اور انصار عباسی تھے وہ گروپ اس چیف کی معاونت کررہے تھے اس طرح پاسکتان کے اندر انتہا پسندوں کا میڈیا برگیڈ انصار عباسی اور حامد میر کی سرکردگی میں تیار تھا۔ دوسری طرف ان کا عدالتی بریگیڈ تیار تھا۔ جب کالے کوٹوں والے عدالتی بھتہ خوروں نے مشرف کے خلاف تحریک شروع کی تھی، شروع میں تمام سول سوسائٹی ان کی ہمنوا بن گئی اور وہ امید بھی کرنے لگی شاید ان کی زندگیوں میں کچھ بہتری کی سہولتیں میسر ہو جائیں۔ اپنا معصوم عوام نے جلد ہی اندازہ لگا لیا کہ ان تلوں میں تیل نہیں جب افتخار چوہدری کو بحال کروا دیا تو اس کے بعد کے حالات نے ان معصوم لوگوں کے خوابوں کو چکنا چور کردیا ان کا رگڑا لگا دیا گیا یوں وہ حالات کی چکی میں مزید پستے چلے گئے اور حالات خراب سے خراب ہوتے چلے گئے۔ پہلے ان کو جو دو وقت کی روٹی ملتی تھی اب وہ بھی اس کے محتاج ہوتے چلے گئے اور یہ عدالتی بریگیڈ کا چیف عوام کو خط لکھنے چکر میں بھاتا رہا، کبھی عوام کی توجہ دہشت گردی، یہ ثابت کرنے کی کوشش کی میں نجات دہندہ کے طور پر موجود ہوں تو تم کہاں کے دعویدار ہو کر آگئے۔ اور جب جنرل مشرف کمانڈو ہونے کا دعویٰ لے کر پاکستان پہنچے تو اس عدالتی بریگیڈ کو اپنی نجات دہندہ ہونے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نظر آرہے تھے۔ یوں اس آخری جنگ کے لئے جنرل مشرف کا روایتی حریف اپنے مربی بریگیڈ کے ساتھ ساتھ اپنے عدالتی بریگیڈ کے چیف میڈیا بریگیڈ کے حامد میر اور انصار عباسی اپنے سیاسی حلیفوں کے ساتھ تھے یہاں پر کچھ طبقے اصولی طور پر مشرف اور فوج کے خلاف تھے۔ جن کے ساتھ یہ میڈیا بریگیڈ بھی شامل ہو گیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں