پاکستان اور 8 فروری 2024ءانتخابات 131

”عدم اعتماد“

پاکستانی سیاست اپنی 75 سالہ تاریخ کو برقرار رکھتے ہوئے حسبِ روایت بحران میں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد کی زد میں ہیں۔ اسمبلی کے بلانے کی ریکوزیشن کے ساتھ ساتھ عدم اعتماد کی قرارداد بھی پچھلے ہفتے اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرادی گئی ہے۔ پچھلے ساڑھے تین سال سے حکومت کو سلیکٹڈ اور نا اہل کا عنوان دینے کے بعد بالاخر بظاہر حزب اختلاف باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک نکتہ پر آمادہ ہوئی اور پاکستان اور پاکستانی قوم کو اس حکومت اور وزیر اعظم سے چھٹکارا دلانے کے لئے تحریک عدم اعتماد پر متفق ہوئی۔ یہ قرارداد پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ کی جانب سے داخل کی گئی ہے۔ پی ڈی ایم کی ابتداءتقریباً اٹھارہ ماہ قبل تمام اپوزیشن پارٹیوں کی شمولیت سے ہوئی۔ پرانے حریف یعنی پاکستان پیپلزپارٹی اور ن لیگ اس موومنٹ کے ابتدائی عرصہ میں شیر و شکر کی طرح نظر آئے۔ حتیٰ کہ مریم نواز صاحبہ نے مرحومہ بے نظیر صاحبہ کی برسی میں اپنی جماعت کے کئی اراکین کے ساتھ نہ صرف شرکت کی، ان کی قبر پر گل پاشی کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اور بلاول بھٹ زرداری بھائی بہن کی طرح ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے اور اس موجودہ حکومت کو ناکام بنانے اور اسے گھر بھیجنے کے سلسلے میں مضبوط روابط قائم رکھیں گے۔
پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں موجودہ حکومت کے بغض میں اس قدر محو ہوئیں کہ ان کے نمائندگان جلسوں میں جوش خطابت میں ریاست پاکستان کے خلاف بیان بازیوں کے مرتکب ہوئے۔ ریاستی اداروں کے خلاف بھرپور انداز میں کئی اعلانات کئے گئے جو بعدازاں معذرت پر انجام پذیر ہوئے۔ کچھ ہی عرصہ میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی ہمیشہ کی طرح ایک دوسرے کی مخالفت میں مشغول ہوئیں اور پی ڈی ایم تقریباً غیر فعال کردی گئی، موجودہ حکومت نے بلاشبہ ایک دفعہ پھر تمام اپوزیشن جماعتوں کو ایک مقام پر یکجا کردینے کا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔
جہاں حزب اختلاف اپنی اس تحریک کی کامیابی پر پُراعتماد دکھائی دیتی ہے، وہیں حکومتی حلقے بھی اس کا اعلان کر رہے ہیں، وہ مکمل طور سے اس تحریک کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں تاحال اپوزیشن اور حکومت دونوں اطراف سے حکومت کے اتحادیوں کو مصالحت پر آمادہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ تحریک انصاف میں کئی فارورڈ بلاک سامنے آ چکے ہیں، ناراض ارکان اسمبلی کی ایک بڑی تعداد اپوزیشن کے نشانے پر ہے، جنہیں مستقبل کی امیدوں سے باندھا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم کے دیرینہ دوست جہانگیر ترین کئی ماہ قبل ہی ناراض ارکان کا ایک گروپ تشکیل دے چکے ہیں، وزارت سے استعفیٰ دینے والے علیم خان بھی اس وقت منظرعام پر آئے ہیں، خبریں گردش کررہی ہیں کہ وہ ن لیگ کی طرف پرتول رہے ہیں۔ تمام اتحادی جماعتیں ملاقاتوں، رابطوں اور اپوزیشن کی طرف سے مستقبل میں حکومتی حصہ داری کی یقین دہانیوں کے باوجود ابھی تک اپنے اس فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار نظر آتی ہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ اتحاد برقرار رکھیں گی یا عدم اعتماد کا ساتھ دیں گی۔
بلاول بھٹو زرداری کے لانگ مارچ اور پی ٹی آئی کے سندھ کے حقوق بچاﺅ کے انجام پانے کے بعد اپوزیشن کے اس اعلان نے کہ پاکستانی عوام موجودہ حکومت اور وزیر اعظم سے لا تعلق ہو چکے ہیں اور عمران خان کی مقبولیت ختم ہو چکی ہے، حکومت نے بھی عوامی رابطے استوار کرنے کا فیصلہ کرلیا، اب عمران خان جلسوں سے خطاب کررہے ہیں، جلسوں میں ان کا لب و لہبہ پُراعتماد ضرور ہے مگر ملک کے وزیر اعظم ہونے کے ناطے ان پر کچھ گہری اخلاقی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ مخالف چاہے کسی بھی طرزعمل کا مظاہرہ کرے ایک ملک کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے آپ کو اپنے طرزعمل میں شائستگی برقرار رکھنی ہے۔ عمران خان جلسوں میں اس کی پاسداری کرنے میں کافی حد تک ناکام رہے، بلاول بھٹو کی طرز گفتگو کو مثال نہیں بنایا جا سکتا کہ ان کا مارچ کو گو کہ جمہوریت بچاﺅ کا نام دیا گیا مگر درحقیقت یقینی طور پر یہ ایک تربیتی عمل تھا۔ پی پی پی کے چیئرمین کے لئے جس میں وہ مستقبل میں بہتری کے عمل سے گزریں گے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسے وقت میں جب اپوزیشن پچھلے تقریباً چار سالوں سے عمران خان، ان کی حکومت، مہنگائی، کرپشن کے مقدمات کو بھگت رہی ہے، ٹھیک اس وقت جب او آئی سی کا اجلاس 15 سال بعد پاکستان میں ہونے جا رہا ہے۔ امریکہ عمران خان کی Absolutely Not سن کر تقریباً سیخ پا ہے۔ یورپی یونین پاکستان سے روس کی مذمت پر زور دے رہی ہیں۔ اس سلسلے میں یوپرین سفارت کاروں کا مراسلہ حکومت پاکستان کو موصول ہو چکا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم روس کا دورہ ایک ایسے وقت میں کر چکے ہیں جب روس، یوکرین پر ابتدائی حملہ کررہا تھا۔ پاکستان اپنی آزاد خارجہ پالیسی قائم کرنے کا اعلان کرنے کی وجہ سے مغربی دنیا میں ایسا یک آزاد اور خود مختار مقام بنانا چاہ رہا ہے۔ کشمیر کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی پر احتجاج کررہا ہے۔ اسلاموفوبیا پر دنیا سے سوال اٹھا رہا ہے، ایک ایسے وقت میں جب پاکستانی حکومت علاقائی سالمیت پر غور و خوض کرنے کے ساتھ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے، او آئی سی میں خاص طور پر اس وقت چین ایک اہم مہمان کے طور پر مدعو کیا گیا ہے، ایک ایسے وقت جب نہ صرف حکومت بلکہ ریاست کی سالمیت اور وقارپر اقوام عالم کی نظریں لگی ہوئی ہیں، اس تحریک عدم اعتماد کا محرک کیا ہے؟ کیا ان تمام گزشتہ واقعات جن میں پاکستانی حکمرانوں کی مغرب اور سپرپاورز کے آگے سرخم کردینے اور اس کے عوض مفادات کے تذکرے ہیں پر من و عن یقین کر لیا جائے اور یہ باور کر لیا جائے کہ ایک دفعہ پھر پاکستانی سیاستدان ملک کے وقار اور عزت کا سودا کرنے کے آلہ کار بننے کو تیار ہو گئے ہیں، اس حکومت کی مدت ختم ہونے میں تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ باقی ہے۔ انتخابات چھ یا آٹھ ماہ پہلے بھی ہو سکتے ہیں اس وقت حکومت گرانے کے بعد اگر اسمبلیاں نہ بھی تحلیل کی گئیں تو کیا نظام سنبھالنے کی استطاعت نظر آرہی ہے؟ اس کے علاوہ جس معیشت کی بدحالی کا تذکرہ زور و شور سے جاری ہو کر عدم اعتماد کی تحریک چلائی جارہی ہے کیا وہ سنبھل سکے گی؟ کیا موجودہ حکومت کو گھر بھیج دینے کے بعد اپوزیشن میں موجودہ برادرانہ سلوک قائم رہے گا؟ سب اپنی پچھلی مخاصمانہ روش کی طرف لوٹ جائیں گے، کیا واقعی پیپلزپارٹی وفاق اور پنجاب میں ن لیگ کی اہم ترین تعیناتیوں کو برداشت کر لے گی۔ آصف زرداری معاہدوں کو کاغذی دستاویزات سے زیادہ کی اہمیت نہیں دیتے۔ وہ پچھلے معاہدوں کے بارے میں ”آسمانی صحیفے“ کے نہ ہونے کا رویہ اختیار کر چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اپنے گزشتہ دھرنے میں ن لیگ اور پی پی پی کے رنگ دیکھ چکے ہیں، کیا وہ اتحادی جماعتیں جو بڑی جماعتوں سے دلبرداشتہ ہو کر تحریک انصاف سے آ ملی تھیں، دوبارہ ان سے بھلائی کی توقع رکھ سکتی ہیں۔
تحریک انصاف ان امیدوں پر پورا نہیں اتر سکی جس کا اس نے عوام سے وعدہ کیا تھا، اس کے علاوہ کمزور گورنس اور کابینہ میں مستقل ردوبدل نے اس حکومت کو کمزور کیا۔ اتحادیوں کو بھی اس حکومت نے مطمئن نہیں رکھا۔ جو ملاقاتیں عمران خان اب کررہے ہیں اگر یہ سلسلہ قائم رہتا تو اس کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اس وقت خود پی ٹی آئی کو اپنے اندر خلفشار کا سامنا ہے جس کا سدباب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اپوزیشن کے تمام قائدین نیب کے مقدمات بھگت رہے ہیں۔ عمران خان اپنے ہر خطاب میں اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ وہ ان مقدموں کو انجام تک لے جائیں گے جب کہ یہ ان کا دائرہ اختیار نہیں ہے، یہ تمام امور پچھلے ساڑھے تین سال سے چلے رہے ہیں اور اب تحریک عدم اعتماد آچکی ہے، برعکس اس کے کہ آئندہ انتخابات کی تیاریاں شروع کی جائیں اب تو وقت ختم ہونے کو ہے اور اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو پھر کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔
حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ وہ اس تحریک سے سرخرو ہوکر نکلے گی۔ مولانا نے اعلان کیا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو ملک کو انارکی کی طرف دھکیل دیا جائے گا اگر یہ طرز عمل اپنایا گیا تو کیا وہ ادارے جو پاکستان کی سلامتی کے ضامن ہیں خاص کر افواج پاکستان جن کو پی ڈی ایم کے جلسوں میں بطور خاص نشانہ بنایا جاتا رہا، صرف خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ یا ریاست کو بچانے کی حکمت عملی اپنائیں گے؟
تحریک عدم اعتماد نے بہت سارے وسوسوں اور اندیشوں کے در وا کر دیئے ہیں۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس نے کئی بحرانوں کا سامنا کیا ہے۔ قدرتی آفات سے لے کر حکمرانوں کی نا اہلی اور کمزوریوں کی وجوہات کی بناءپر۔ ریاست پاکستان کے خیر خواہوں پر ریاستی سالمیت کو فوقیت دینے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اقتدار کے کھیل اسی وقت تک جاری رہ سکتے ہیں جب تک یہ ریاست مضبوطی سے قائم ہے۔ ماضی میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والی طاقتیں اگر اب بھی چور دروازے سے مداخلت کرنے میں کامیاب رہیں تو یہ اس ملک اور قوم کی بدقسمتی کے سوا کچھ بھی نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں