Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 506

عروج و زوال

ہر اس عروج کو جو اپنی حیثیت اپنی اوقات بھلابیٹھے زوال ہے اور ہر زوال ایک عبرت ہے ایک سبق ہے عروج پر پہونچ کر خدا تک کو بھول جانا زوال کی نشانی ہے شہنشاہ وقت بڑے بڑے مغرور سپہ سالار اور طاقت کے نشے میں چور لوگ جب خدا کی پکڑ میں آئے تو فرار کے لئے زمین پر نہ کوئی ٹھکانہ ملا اور نہ ہی کوئی سہارا قدرت جب کسی کو عزّت اور طاقت دیتی ہے تو لوگ خود بخود اس کے آگے پیچھے جمع ہوجاتے ہیں ،کئی خوشامدی بھی آجاتے ہیں اور جب اس کی حیثیت سے بڑھ کر اس کی عزّت ہونے لگتی ہے جو کہ وقتی ہوتی ہے تو اس میں غرور اور تکبّر پیدا ہوجاتا ہے وہ اسے اپنی ذاتی صلاحیتوں کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ یہ سب فصلی بٹیریں ہیں برے وقت آنے پر نظر نہیں آئیں گے اور تب اس کو مخلص لوگ یاد آنے لگتے ہیں جن کو وہ بھول چکا تھا۔اور یہیں سے اس کے زوال کا دور شروع ہوجاتا ہے بعض اشخاص طاقت کے نشے میں اتنے بد مست ہوجاتے ہیں کہ خدائی یا پیغمبری کا دعوی’ کرنے لگتے ہیں۔بہرحال یہ تو ایک تمہید تھی۔ اصل موضوع ایک پرانا واقعہ تھا۔کچھ لوگوں کو ڈیوڈ کوریش تو یاد ہوگا۔17 اگست 1959 میں ہیوسٹن ٹیکساس میں 14 سال کی ایک غیر شادی شدہ لڑکی نے ایک بیٹے کو جنم دیا جس کا نام ورنن وین ہاول تجویز ہوا۔ورنن نے کبھی اپنے باپ کی شکل نہ دیکھی۔ماں ہر وقت شراب کے نشے میں دھت رہتی تھی۔ورنن کی پرورش نانی کے ہاتھوں ہوئی۔چار سال کی عمر میں اس کی ماں کہیں چلی گئی اور پھر تین سال بعد واپس آئی ،ورنن ایک بگڑا ہوا بچّہ تھا بائیس سال کی عمر میں اس کا ذہن مذہب کی طرف راغب ہوگیا 1981 میں وہ ویکو ٹیکساس کے ایک مذہبی گروپ میں شامل ہوگیا۔ یہ گروپ برانچ ڈیویڈین کہلاتا تھا۔ورنن اس گروپ کے بنائے ہوئے چرچ میں گٹار بھی بجاتا تھا اس نے بہت جلدی کافی لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا۔ کچھ عرصے بعد وہ اپنے آپ کو عام لوگوں سے مختلف سمجھنے لگا۔ اس نے اپنے آپ کو پیغمبر سمجھنا شروع کردیا تھا۔اور یہیں سے اس کے زوال کا دور شروع ہوگیا۔لوگ اس کی بات ماننے لگے وہ ایک علیحدہ بڑے گروپ کا لیڈر بن گیا۔اب یہ دو گروپ ہوچکے تھے۔اس نے اپنا نام ورنن وین ہاول سے قانونی طور پر تبدیل کرکے ڈیوڈ کوریش رکھ لیا اور پیغمبری کا دعوی’ کردیا کہ اسے خدا کی طرف سے ہدایات آتی ہیں۔اصل گروپ جس میں ڈیوڈ پہلے شامل ہوا تھا اس کا نام ماو¿نٹ کارمیل تھا اور اس کی لیڈر ایک بوڑھی عورت لوئس روڈن تھی۔1986 میں لوئس انتقال کرگئی اس کے بعد اس کے بیٹے جارج نے برانچ ڈیویڈین کی لیڈر شپ سنبھال لی اور ڈیوڈ کوریش سے اس کی مخالفت شروع ہوگئی۔چونکہ ڈیوڈ نے اپنا علیجدہ گروپ بنالیا تھا لہذا انہوں نے ماو¿نٹ کارمیل چھوڑ کر سو میل دور اپنا ٹھکانہ بنالیا۔اس کے بعد اس نے اسرائیل اور دوسرے ممالک کا دورہ کیا اور وہاں بھی اپنے نئے مذہب کی بنیاد ڈال دی۔لہذا اس کے ماننے والے اسرائیل ،برطانیہ اور آسٹریلیا میں بھی ہوگئے۔اسی دوران جارج روڈن نے مردوں کو زندہ کرنے کے لئے ڈیوڈ کوریش کو مقابلے کی دعوت دی اور قبروں سے لاشیں نکال کر لے آیا جس کی اطلاع ڈیوڈ نے ایف،بی،آئی کو کردی مقصد جارج کو پھنسوانا تھا۔ انہوں نے ثبوت مانگا ڈیوڈ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ماو¿نٹ کارمیل گیا کہ لاشوں کے فوٹو لے سکے۔وہاں ان دونوں گروپوں میں اسلحے کے ساتھ مقابلہ ہوا ۔جارج زخمی ہوگیا اور ڈیوڈ گرفتار ہوگیا لیکن عدم ثبوت کی بنائ پر رہا ہوگیا۔اسی دوران جارج نے ایک شخص کو قتل کردیا اور گرفتار ہوگیا پھر اس نے بھی پیغمبری کا دعوی’ کردیا نتیجے کے طور پر پاگل ٹھہرایا گیا اور پاگل خانے بھیج دیا گیا ڈیوڈ کوریش کے لئے میدان صاف ہوچکا تھا لہذا اس نے ماو¿نٹ کارمیل سینٹر پر قبضہ کرلیا۔اس کے ساتھ اس کے ماننے والوں کا ایک بہت بڑا گروپ تھا۔آہستہ آہستہ گوورنمنٹ کو ڈیوڈ کوریش کی غیر قانونی سرگرمیوں کی کثیر تعداد میں رپورٹس ملیں جس میں بے شمار کمسن لڑکیوں سے شادی اور بے شمار ناجائز بچوں کی ولادت جن کے بارے میں ڈاوڈ کوریش کا اپنا علیحدہ فلسفہ تھا۔امریکہ میں مذہبی آزادی ہونے کی وجہ سے قانون کی بھی کچھ مجبوریاں تھیں۔بہرحال 28 فروری 1993 ڈیوڈ کوریش کے لئے اس کی پیغمبری اور اس کی زندگی کا آخری دن تھا۔جب قانونی اداروں کی جانب سے واکو رینچ پر حملہ ہوا ڈیوڈ کوریش اور اس کے معتقدین کو باہر آنے کے لئے کہا گیا۔جواب میں انہوں نے فائرنگ شروع کردی۔بلڈنگ کے اندر 17 سال سے کم عمر تقریبا” اٹھارہ بچّوں سمیت 76 افراد تھے۔پھر کچھ ایسا اسلحہ استعمال ہوا جس سے بلڈنگ میں آگ لگ گئی اور ڈیوڈ کوریش کے ساتھ 76 افراد زندہ جل گئے۔بے شک ہر اس عروج کو زوال ہے جو طاقت کے نشے میں اپنے آپ کو بھول جائے۔مغل بادشاہوں کی تاریخ میں محمّد شاہ کا بھی نام ہے جس کا اصل نام روشن اختر تھا۔وہ خجستہ اختر جہاں شاہ کا بیٹا تھا ۔خجستہ اختر ایک جنگ میں مارا گیا۔12 سالہ روشن اختر اور اس کی ماں کو جیل میں ڈال دیا گیا پانچ سال بعد سیّد برادران نے روشن اختر کو رہا کرواکر تخت پر بٹھوادیا۔ احکامات سیّد برادران کے ہوتے تھے وزیراعظم نظام ملک تھے۔3 سال بعد روشن اختر نے نظام ملک کی مدد سے سیّد برادران کو بھی قتل کروادیا۔روشن اختر رنگین مزاج تھا ہر وقت شراب کے نشے میں ڈوبا رہتا تھا اور عجیب احمقانہ حرکتیں کرتا تھا بعد میں مو¿رخین نے اس کے نام کے ساتھ رنگیلا کا اضافہ کردیا حکومت،طاقت اور شراب کے نشے میں سپاہیوں کو جیل میں ڈلوادیتا۔جیل میں جو قیدی ہوتے رہا کروادیتا اور اتنی ہی تعداد میں دوسرے قیدی لانے کا حکم دیتا اور سپاہی جسے چاہتے پکڑ کر جیل میں ڈال دیتے۔اپنے چہیتے گھوڑے کو وزیراعظم کا لقب دے دیا اور شاہی لباس پہناکر دربار میں بٹھادیا ۔کسی نے کہہ دیا کہ سر کی دھار تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہوتی ہے اس کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی جب نادر شاہ کی فوجوں نے حملہ کیا تو محمّد شاہ کی فوجوں کے ہاتھ میں ہتھیاروں کے بجائے سارنگیاں،ستار ،طبلے اور طرح طرح کے موسیقی کے سامان تھے نادر شاہ خوب ہنسا۔ظاہر ہے محمّد شاہ رنگیلے کو شکست ہوئی ،اپنے گھر میں بند ہوگیا خوب روتا تھا اور خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا تھا۔کھانا پینا چھوڑ دیا اور اسی حالت میں 26 اپریل 1748 میں انتقال کرگیا۔عیّاشی ،حکومت کے نشے اور طاقت کے نشے نے اسے کہیں کا نہ رکھّا علمائ دین کو بھی تنگ کیا مذہب میں بھی رخنہ اندازی کی اور بالآخر اپنے انجام کو پہونچا۔آج کے دور میں شہنشاہ ایران ،صدّام حسین،قذّافی یہ وہ لوگ ہیں حقیقت میں ان لوگوں نے ظلم کی انتہا ئ کردی تھی اور ان کا انجام آپ سب کے سامنے ہوا۔تاریخ بھری پڑی ہے۔ظلم کرنا طاقت کے نشے میں الٹے سیدھے احکامات جاری کرنا۔جب انسان اتنا طاقتور ہوجاتا ہے کہ اس کو ماننے والے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں اور اس کی ہر غیر اخلاقی حرکت پر تالیاں بجاتے ہیں ،تو اس کا انجام یہی ہوتا ہے اس دور کے فرعونوں کے لئے یہ لمحہ ءفکریہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں