Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 389

عروس البلاد

کراچی روشنیوں کا شہر عروس البلاد،کبھی امن کا گہوارہ تھا۔کراچی میں اردو بولنے والے جسے عام فہم زبان میں مہاجر کہا جاتا ہے 28 یا 30 سال کے جوان سے اگر یہ بات کہی جائے تو وہ حیرانی سے ہماری طرف دیکھے گا۔پاکستان کا سب سے مصروف اور پر رونق شہر جہاں رات میں بھی دن کا سماں ہوتا تھا۔زیورات سے لدی پھندی خواتین شادی بیاہ کی تقریبات میں جاتی تھیں اور رات گئے بلا خوف و خطر واپس آتی تھیں۔کوئی ڈر نہیں ہوتا تھا کہ کوئی پستول دکھاکر چوڑیاں اتار لے گا۔جس علاقے میں غربت ہوتی ہے پیسہ نہیں ہوتا روزگار نہیں ہوتا لوگ وہاں سے ایسے علاقوں کی طرف جاتے ہیں۔جہاں امارت ہوتی ہے روزگار ہوتا ہے جیسے عرب میں تیل نکلنے کے بعد لوگوں نے روزگار کے لئے عرب کا رخ کیا ،اور دنیا کے دوسرے ترقّی یافتہ ملکوں کی طرف رخ کرتے ہیں۔جہاں کے مقامی لوگ چھوٹے موٹے کام نہیں کرتے لہذا مزدوری آسانی سے مل جاتی ہے پاکستان کے مختلف علاقوں کے لوگ کراچی محنت مزدوری کے لئے آتے تھے۔اس کا مطلب ہے امارت تھی روزگار تھا اور مقامی لوگ چھوٹے کام نہیں کرتے تھے۔خیبر پختونخواہ جسے پہلے صوبہ سرحد کہا جاتا تھا وہاں کے طاقتور ،محنتی جفاکش اور ایمان دار لوگ کراچی آکر مزدوری کرتے تھے۔ایک کدال اور بیلچہ کاندھے پر ہوتا تھا اور تنہا آدمی 20 فٹ گہرا کنواں اس ایک کدال اور بیلچے سے کھودلیتا تھا ایمان داری کے باعث ان کو چوکیداری پر بھی لگایا جاتا تھا۔اس کے علاوہ سندھ کے دیہی علاقوں سے پنجا ب اور بلوچستان کے علاقوں سے لوگ آتے تھے اور مکان سڑکیں پل اور دوسری تعمیرات کے لئے مزدوری کرتے تھے۔میں نے پاکستان بھر کے لوگوں کو کراچی میں مزدوری کرتے دیکھا لیکن کبھی کسی کراچی والے کو دوسرے شہر جاکر مزدوری کرتے نہیں دیکھا۔ کراچی سے کچھ لوگ صرف نوکریوں میں تبادلے کی بنائ پر جاتے تھے۔کراچی میں ماسیاں ،مالی،ڈرائیور ، مزدور، گھریلو نوکر ،پیٹرول پمپ ملازم،رکشہ،ٹیکسی،بس ڈرائیور یہ سب دوسرے صوبوں کے محنت کش لوگ تھے۔ان غریب لوگوں نے بے انتہا محنت کی پیسہ جمع کیا اپنے خاندان والوں کو لے کر آئے بچّوں کو پڑھایا لکھایا۔اور آہستہ آہستہ دوسری اچھّی نوکریوں کی طرف متوجّہ ہوئے۔اپنے اپنے علاقے والوں اور اپنی زبان والوں کی مدد کی اور اچھّے اچھّے عہدوں تک رسائی حاصل کی یہ وہ ابتدائی دور تھا جس میں کسی کو قصور وار نہیں ٹھریایا جاسکتا اس میں کراچی والوں کی اپنی غلطیاں تھیں۔وہ کبھی متّحد نہیں ہوئے کبھی ایک دوسرے کی مدد نہیں کی۔اور اگر کچھ لوگوں نے اپنے علاقے والوں اپنی زبان والوں کو آگے بڑھنے میں مدد کی تو میرے نز دیک ایسے لوگ قابل تحسین ہیں۔یہ ہر جاندار کی فطرت میں ہے کہ اپنے جیسا دیکھ کر اس کی طرف بڑھتا ہے۔ایک تار پر چند چڑیاں بیٹھی ہیں تو وہاں چڑیاں ہی آکر بیٹھیں گی۔ بیچ میں کوئی کوّا آکر نہیں بیٹھے گا۔ اسی طرح کوو¿ں میں چڑیا نہیں آکر بیٹھے گی۔تمام جانوروں کے علیحدہ علیحدہ غول ہوتے ہیں اور اپنے جیسے کو دیکھ کر اس کی طرف لپکتے ہیں۔بہرحال ایک وقت ایسا آیا کہ کراچی والوں کو ان کے اپنے ڈومیسائل پر نوکریاں ملنا بند ہوگئیں۔کوٹہ دو فیصد تھا لیکن نوکریاں صفر پی آئی اے جیسے بڑے محکموں میں جو کراچی والے بھرتی ہوئے وہ ذیادہ تر باہر کے جعلی ڈومیسائل پر تھے۔بہرحال اس صورت حال میں جب مہاجر قوم مایوسی کا شکا ر ہونے لگی اور کسی اچھّی اور مخلص قیادت کا انتظار کرنے لگی تو ایسے میں کسی نے ایک منظّم سازش کے تحت ایم کیو ایم کو مکمل سازو سامان کے ساتھ آگے کردیا۔ایک غریب گھرانے کا شخص جو کالج اور یونیورسٹی کی سیاست میں سرگرم رہا۔جو ایک اچھّا مقرّر بھی رہا لیکن پیسہ اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے فیل ہوگیا تھا کیونکہ سیاست میں آنے کے لئے یہ دو چیزیں بہت ضروری ہیں۔اسے یہ دونوں ابتدائی کاموں کے لئے فراہم کی گئیں۔وہ تو اپنے مالی حالات بہتر کرنے کے لئے امریکہ جاکر ٹیکسی چلارہا تھا ۔ایم کیو ایم کو آگے بڑھانے کا پورا پلان مافیا کی طرز پر بنایا گیا تھا۔اٹلی کے ایک شہر پالیرمو میں مافیا کی بنیاد پڑی شہر کے تمام چھوٹے چھوٹے چور اچکّوں کو یکجا کرکے ان کو اسلحہ دیا گیا اور پاور دی۔کراچی میں بھی چھوٹے چھوٹے چور اچکّوں کو اسلحہ اور پاور دی گئی جتنے بھی محلّوں میں چاقو مار بدمعاش ہوتے تھے کچھ تو چاقو دکھاکر بچّوں سے پیسے بھی چھین لیتے تھے ان سب کو کلاشنکوف تھمادی گئیں کسی کو یونٹ انچارج تو کوئی سیکٹر انچارج یہاں تک کے یہ لوگ کونسلر تک بن بیٹھے۔دونوں نے لوٹ مار اور بھتّہ خوری سے پیسہ جمع کیا۔آہستہ آہستہ مافیا کے لوگ سیاست میں داخل ہونا شروع ہوگئے اور ایک وقت ایسا آیا کہ پالیر مو شہر کے مئیر اور گورنر مافیا کے لوگ تھے۔ایم کیو ایم کو آگے کرنے والی جو بھی طاقت تھی اس کا کام ختم ہوگیا تھا اس کی دلچسپی ختم ہوگئی تھی۔اب سب کچھ الطاف حسین اور ان کے کارندوں کے ہاتھ میں تھا مخلص اور غلط حرکتوں پر اعتراض کرنے والوں کو ختم کردیا گیا تھا۔ایک وقت ایسا بھی آیا جب پورے کراچی پر ایم کیو ایم کا کنٹرول تھا مفاہمت کے لئے بے نظیر اور نواز شریف کے علاوہ بڑے بڑے لیڈر صاحبان الطاف حسین کے گھر آئے۔اور یہیں سے ان کے دماغ خراب ہوگئے اگر یہ اس وقت ماٹجروں پر ہونے والی زیادتیوں اور کوٹہ سسٹم کے خاتمے کے علاوہ اپنے تمام مطالبات منوالیتے تو تحریک کا مقصد پورا ہوجاتا۔لیکن یہ اس گمان میں ہوگئے کہ اب یہ پورے پاکستان کی سیاست پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور ایم کیو ایم پاکستان کی حکمران پارٹی بن سکتی ہے لہذا انہوں نے پینترا بدلا اور مہاجر تحریک کو سیاسی پارٹی کا نام دے دیا۔اور کوشش شروع کردی کہ پورے پاکستان میں ایم کیو ایم کے آفس کھول لیں لیکن ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا دوسری جانب جتنے بھی موالیوں کو پاور دی تھی وہ صرف اندھا دھند جلد سے جلد پیسہ بنانے میں لگے ہوئے تھے۔ صائمہ سینٹر اور اس نام کے تمام بڑے پروجیکٹ کے مالک جن کی جیب میں سگریٹ کے پیسے نہیں ہوتے تھے راتوں رات ارب پتی بن گئے۔32 سال پہلے شروع ہونے والی یہ کہانی ابھی تک جاری ہے۔ ہزاروں نوجوان شہید ہوگئے ہزاروں خاندان برباد ہوگئے۔نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم اور مفاد پرست نوجوانوں کی لاشوں پر سیاست کرکے بے شمار خاندانوں کو تباہ کرکے پیسہ سمیٹ کر دوسرے ممالک میں بیٹھے ہوئے ہیں اور بے وقوف کارکنان پر ہنس رہے ہیں۔ایم کو ایم نے ہمیشہ مہاجروں کو کنفیوز رکھّا شروع میں صرف مہاجروں کے حقوق کی بات کی بعد میں متحدہ کردینے کے بعد کہا گیا ہم تو پاکستان کے تمام مظلوم عوام کے ساتھ ہیں۔مہاجروں کی ایک بڑی تعداد اس گمان میں رہی کہ ایم کیو ایم صرف مہاجروں کی تحریک ہے ۔جس کا پہلا مطالبہ کوٹہ سسٹم کا خاتمہ ہے لیکن میں نے کبھی نہیں محسوس کیا کہ کوٹہ سسٹم کے بارے میں کبھی سنجیدگی سے بات ہوئی ہو۔ہر حکومت کے ساتھ مل گئے ذاتی فوائید اٹھائے اور بس۔دوسری بات مہاجروں کے ذہن میں یہ تھی کہ کراچی کو علیحدہ صوبہ بنایا جائے گا جیسا کے شروع میں ایم کیو ایم کا مطالبہ تھا لیکن بعد میں صاف انکار ہوگیا کہ ہم تو صوبہ کی بات نہیں کرتے اور ایک بڑی تعداد تو اس دھوکے میں رہی کہ متحدہ کا نعرہ تو دوسروں کو بے وقوف بنانے کے لئے لگایا ہے لیکن خود ہی بیوقوف بن گئے کہ ایم کیو ایم ہمارے حقوق دلوائے گی کون سے حقوق کہاں کے حقوق آج تک یہی نہیں معلوم ہوا کہ آخر مطالبہ کیا ہے اور جو لوگ حقوق کے نعرے لگارہے تھے نوجوانوں کو استعمال کررہے تھے انہوں نے اربوں روپیہ سمیٹا بڑے بڑے پلازہ تعمیر کئے پیسہ ملک سے باہر بھیجا تمام خاندان لندن اور دوسرے ممالک میں راج کررہا ہے بچّے باہر کے اسکولوں میں پڑ رہے ہیں اور غریب کارکنوں کے بچّے گلیوں میں ننگے کھیل رہے ہیں۔آخر میں ایم کیوایم چھوڑ کر چپ چاپ خود بھی نکل لئے اب کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ان کی دیکھا دیکھی پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ ن اور اے این پی نے بھی خوب کراچی کو لوٹا ،،اور اب ایم کیو ایم والے چار چار گروپ بناکر اس سونے کی چڑیا کراچی پر قابض ہونے کی جنگ میں لگے ہوئے ہیں۔کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں مجبور ہیں۔جب سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر کرنا پڑ رہا ہے اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرسکتے نہ اپنے لئے نہ قوم کے لئے تو بھائی دکان بند کرو پارٹی ختم کرو اور عام لوگوں میں شامل ہوجاو¿ کیا مجبوری ہے۔اور اب یہ عالم ہے کہ کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں ایم کیو ایم کی حماقتوں کی وجہ سے اور ایم کیو ایم کو وجہ بناکر آج کراچی کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے کراچی اور دوسرے شہروں کی جرائم پیشہ لوگوں نے اپنے مستقل ٹھکانے بنالئے ہیں۔اور اب یہ عالم ہے کہ پاکستان کا خوبصورت شہر عروس البلاد کراچی گندگی کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس شہر کو سیاست کے شیطان کھاگئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں