بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 454

عزت نفس

کورونا وائرس نے پوری دُنیا بدل کے رکھ دی۔ ابھی تو ابتداءہے، نہ جانے چند ماہ میں کیا کچھ بدل جائے گا۔ پورا معاشرہ ایک بڑی انقلابی تبدیلی کی جانب گامزن ہے۔ سوشل تعلق میں نمایاں تبدیلی رونما ہونے جارہی ہے۔ پورا کلچر تبدیل ہو رہا ہے۔ پوری دنیا کے انسان ایک بہت بڑے کنفیوژن میں مبتلا ہیں۔ ہم آج کورونا وائرس سے پریشان ہیں مگر یہ بھول رہے ہیں کہ اس سوشل فاصلوں اور باہمی رابطوں میں دوری اور لاک ڈاﺅن کا کس قدر بھیانک نتیجہ جلد ہمارے سامنے آنے والا ہے۔ اس وقت میں بات کروں گا پاکستان کی کہ ایک جانب تو کورونا وائرس نے لوگوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں، وہ لوگ جو اپنے اہل خانہ کے لئے روزانہ کی بنیاد پر محنت کرکے کماتے اور کھاتے ہیں آج سخت اذیت کا شکار ہیں۔ اُن کا واسطہ ایسے مسلمان بھائیوں سے پڑھ رہا ہے کہ اگر مدد درکار ہو تو ایک صابن کی ٹکیہ کے لئے بھی اُسے سوشل میڈیا کے لئے اپنی تصویر بنوانا پڑتی ہے۔ ورنہ وہ ایک صابن سے بھی محروم ہو جائے گا۔ اسی طرح آٹے کا تھیلہ دینے والوں کی تصویر، 10 افراد کے درمیان میں ایک آٹے کا تھیلہ لینے والا اس قدر بے بس اور لاچار دکھائی دیتا ہے مگر افسوس ہے کہ یہ امداد کرنے والے کس قدر سفاک ہیں کہ ان کے احساسات مکمل طور پر مر چکے ہیں۔ وہ انہیں جانتے کہ
تتلیاں بھی کھرے کھوٹے کی پرکھ رکھتی ہیں
پھول گلدانوں میں کاغذ کے سجاتے کیوں ہو
ہمیں سمجھنا چاہئے کہ وہ ذات باری تعالیٰ جو روز صبح کو اٹھاتا اور رات کو سلاتا ہے، پورا دن اپنی نعمتوں کی بارش کرتا رہتا ہے مگر کیا کبھی اُس نے پردہ اٹھائے؟ اُس ذات باری تعالیٰ نے تو انسان کا اس قدر پردہ رکھا کہ وہ روز قیامت بھی اولاد کو ان کی ماں کے نام سے پکارے گا کہ کہیں باپ کے نام لینے سے اُس کے نبی کے اُمتی شرمندہ نہ ہو جائیں۔ اس ایک اللہ اس کے پیارے نبی اور اس کی مقدس اور عظیم کتاب کے ماننے والے اس قدر کم ظرف اور ظالم ہیں۔ انہیں یہ احساس نہیں کہ وہ اس نمائش کے ذریعہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں جہالت نہیں بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی ایسی حرکات کرتے نظر آتے ہیں، کسی نے سچ کہا ہے کہ چند کلاسیں پڑھ لینے سے کچھ نہیں حاصل ہوتا۔ جب تک انسان شعور کی بلندیوں کو نہ پالے، بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بھی خاموش تماشائی بنے اس قسم کی ویڈیوز کو شیئر کرتے ہیں اور ایسے افراد کا بائیکاٹ کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ ان افراد کو کوئی احساس نہیں دلاتا کہ تمہارا یہ فعل کس قدر ذلت و رسوائی کا باعث ہے اُن سفید پوش لوگوں کے لئے جو منہ چھپا کر اور بھوکے رہ کر اپنی عزت محفوظ بنائے ہوئے ہیں۔ میرا سوال ہے کمیونٹی کے اُن ناخداﺅں سے کہ ذرا بتائیں کہ یہ روز انسانوں کی عزت نفس کا خون کرکے کون سی خوشی حاصل کررہے ہیں۔ ہمیں ایسے افراد کے خلاف ایک تحریک چلانا چاہئے اور بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ ایسے لوگوں کا کہ جو اس جرم کا ارتکاب کررہے ہیں بلکہ ایسے افراد کا اصل چہرہ پوری دُنیا کو دکھانا چاہئے تاکہ یا تو یہ سیکھ سکیں کہ ان کی کیا غلطی ہے؟ یا پھر اپنی ان حرکتوں سے باز رہیں اور بس اپنی کھال میں مست رہیں۔ ایسی خدمت خلق سے دور رہیں جن سے خلق خدا کی جگ ہنسائی ہوتی ہو۔
جس نگری میں ہم رہتے تھے
سلطان وہاں کا جابر تھا
اور جبر کا اذنِ عام بھی تھا
یہ رسم وہاں جمہوری تھی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں