پاکستان اور 8 فروری 2024ءانتخابات 300

عمران خان بمقابلہ مافیا

عمران خان اور ان کی حکومت اس وقت ایک انتہائی مستحکم مقام پر نظر آتے ہیں۔ تجارتی خساروں میں کمی آئی ہے، ترسیلات زر میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے، اسٹاک ایکسچینج بلند انڈیکس دکھا رہا ہے، انرجی سیکٹر میں بہتری کی طرف مسلسل پیش قدمی ہو رہی ہے۔ برآمدات خاص طور پر ٹیکسٹائل کے شعبے میں تیزی کی نشانیاں مل رہی ہیں۔ ایف بی آر نے ٹیکس ریٹرن میں اضافہ کی خبر سنائی ہے۔ تعمیراتی شعبے میں ترقی کے آثار ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان بین الاقوامی سطح پر ایک مضبوط اور فکر انگیز شخصیت کے طور پر قبول کئے جارہے ہیں اور مختلف موضوعات پر بین الاقوامی سطح پر ہونے والی فورمز میں انہیں انتہائی توجہ سے سنا جارہا ہے۔ پاکستان کی امن کوششوں کا عالمی طور پر اعتراف کیا جارہا ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف عالمی طور پر ڈس انفارمیشن کے ذرائع اس وقت بری طرح سے پاکستان کے خلاف عالمی طور پر ڈس انفارمیشن کے ذرائع اس وقت بری طرح بے نقاب ہوئے ہیں۔ پاکستان نے اس ضمن میں بھرپور احتجاج کیا ہے اور یہ مطالبہ کیا ہے کہ اس قسم کی سرگرمیوں سے سختی سے نبٹا جائے اور مستقبل میں ایسے تمام اداروں پر گہری نظر رکھی جائے۔
پاکستان اپنے ہمسائیوں سے امن کا خواہشمند ہے اور اقلیتوں کے تحفظ پر یقین رکھتا ہے۔ تحریک انصاف کی گلگت بلتستان میں کامیابی نے بھی حکومت کو تقویت فراہم کی ہے اور وہ اپنی حکومت وہاں قائم کرنے میں کامیاب ہوئی۔
وفاقی حکومت اور کابینہ اس کے ساتھ ساتھ کئی محاذوں اور معاملات پر سے نبردآزما ہونے بھی مصروف نظر آتی ہے، چند روز قبل کابینہ میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں، شیخ رشید، اعظم سواتی، عبدالحفیظ شیخ کے قلمدان تبدیل کئے گئے۔ شیخ رشید سے ریلوے کا محکمہ لے کر انہیں وزیر داخلہ کا منصب دیدیا گیا اور چونکہ یہ تبدیلی اپوزیشن کے اس جلسے سے صرف دو روز قبل عمل میں آئی، جس کے بارے میں پی ڈی ایم کی جماعتوں کا دعویٰ تھا کہ یہ جلسہ حکومت کی رخصتی کے سفر میں تابوت کی آخری کیل ثابت ہوگا اس لئے خیال یہ ہی ہے کہ حکومت کو ایک ایسے وزیر داخلہ کی ضرورت تھی جو سیاست کی پیچیدگیوں کو باریک بینی سے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور اس موجودہ صورت حال کو سنبھال سکے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اپنی حکمت عملی کے اظہار میں ابھی تک تذبذب کا شکار نظر آتی ہے۔ ہر اجلاس کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم میں اندرونی طور پر کشمکش کا دور دورہ ہے۔ لائحہ عمل اور تاریخیں مستقل تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ ملتان کے جلسے کے اعلامیہ کے مطابق تمام جماعتوں کے ایم این ایز اور ایم پی ایز اپنے استعفیٰ اپنے قائدین کے پاس 31 دسمبر تک جمع کرا دیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم نے وزیر اعظم اور حکومت کے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کیا۔
پی ڈی ایم کے آخری جلسہ کی میزبان ن لیگ تھی کہ لاہور مسلم لیگ نواز کا گڑھ تعمیر کیا جاتا ہے، حکومت نے اپنی ملتان کے جلسہ سے متعلق کارکردگی سے سبق سیکھتے ہوئے یہ عندیہ دیا کہ وہ لاہور کے جلسے کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی مگر اس کے ساتھ ساتھ جو کورونا کی وباءکی وجہ سے اجتماعات پر پابندی ہے لہذا اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے باقاعدہ اجازت بھی نہیں دیں گی۔ اس جلسے کے منعقد ہونے سے پہلے ن لیگ نے بھرپور مہم چلائی تاکہ جلسہ میں کثیر تعداد کی شرکت یقینی بنائی جا سکے۔ اس ضمن میں خود مریم نواز نے لاہور کے مختلف حصوں کا دورہ کیا اور کارکنوں سے خطاب کیا۔ اس کے علاوہ تمام ارکان اسمبلیوں کو بھی پابند کیا گیا کہ وہ اپنے علاقہ سے شرکاءکے ہمراہ جلسہ گاہ یعنی مینار پاکستان پہنچیں۔ امید یہ ہی تھی کہ یہ جلسہ فقید المثال ہوگا جس میں تمام گیارہ جماعتیں اپنے بے حساب کارکنان کو اکھٹا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی تاکہ حکومت پر یہ واضح کردیا جائے کہ عوام نہ صرف انہیں غاصب سمجھتے ہیں بلکہ ان کی نا اہلی پر ان سے بے طرح نالاں ہیں اور جلد از جلد ان سے چھٹکارے کے خواہشمند ہیں مگر ان تمام توقعات کے برعکس لاہور کا جلسہ وہ تاثر نہ قائم کر سکا جس کی امید تھی۔ کئی سوال اٹھتے ہیں، کیا ایسا ہوا کہ ن لیگیوں نے شہباز شریف کی غیر حاضری کو اس درجہ محسوس کیا اور شریک نہ ہوئے؟ کیا یہ سوال مریم نواز کی موجودہ حیثیت کو خود سوال بناتا ہے؟ یاپھر ن لیگی اور ان تمام جماعتوں کے کارکنان پی ڈی ایم کے بیانیوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔
کیا اداروں اور فوج کے خلاف بیانیہ مثبت کے بجائے منفی اثرات مرتب کررہا ہے، خود جماعتوں کے اندر۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اب ان جلسوں میں کوئی نئی بات سننے کو نہیں مل رہی، وہی عمران خان کی مخالفت کی تکرار اور اداروں پر تنقید۔ تمام قائدین صرف سلیکٹڈ کے جانے کی باتیں کرتے ہیں اور نا اہل حکومت کو گھر بھیجنے کی مگر ان کا فوری متبادل پروگرام بیان نہیں کرتے۔ اس جلسہ میں بھی وہی نشر مکرر رہا۔
جلسے کے مقررین میں سے محمود اچکزئی نے ایک بار پھر اپنے میزبانوں کو ملامت کا شکار بنایا۔ کراچی کے جلسے میںانہوں نے اُردو اور اُردو بولنے والوں کے خلاف بیان دیا تھا، اس دفعہ انہوں نے لاہوریوں کو یہ سمجھتایا کہ لاہوریوں نے پاکستان مخالف معاملوں میں ہندوﺅں اور سکھوں کے ساتھ مل کر انگریزوں کی خدمت کی۔ محمود اچکزئی نے ہمیشہ حامد کرزئی اور اشرف غنی کے پاکستان مخالف پالیسیوں کی حمایت کی ہے۔ افسوسناک امر تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے کسی جماعت کے کسی قائد نے اُن کے اس بیان کی مذمت نہیں کی۔ افسوس تو یہ ہے کہ حکومتی بعض اور ہوس اقتدار میں یہ اپوزیشن اتنی آگے نکل گئی ہے کہ نہ صرف غلط یا صحیح کا فرق مٹ گیا ہے بلکہ جس پاکستان کے غم میں وہ آنسو بہا رہی ہے اس کی تاریخ کو مسخ کرنے کی سازش میں شریک ہے، ورنہ بلوچستان خود اس کا گواہ ہے کہ انگریز وائسرائے بگی سے گھوڑے نکال کر سردار اور نواب خود اس میں جُت گئے۔ محمود اچکزئی قومی سالمیت اور یک جہتی کے لئے ایک گمبھیر مسئلہ ہو سکتے ہیں، اپوزیشن کو اس بات پر غور سنجیدگی سے کرنا چاہئے۔
اپوزیشن یا پی ڈی ایم اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کی بات کررہی ہے، کیا تمام جماعتیں اس میں شریک ہوں گی، کیا پیپلزپارٹی اپنی سندھ حکومت سے دستبردار ہو جائے گی، استعفوں کا زیادہ اصرار مولانا اور مریم نواز کی طرف سے آتا ہے، ہر وہ اس نقصان کا حصہ نہیں ہیں جو باقی جماعتوں کو اٹھانا پڑے گا۔ ویسے بھی یہ استعفیٰ ابھی صرف پارٹی قائدین کے پاس جمع ہو رہے ہیں جب کہ حکومتی وزراءدرخواست کررہے ہیں کہ ڈائریکٹ اسپیکر کے پاس کیوں نہیں۔ قانونی ماہرین کی رائے اپوزیشن کے استعفوں کے بارے میں یہ تاثر دے رہی ہے کہ حکومت اس سے متاثر نہیں ہو گی بلکہ سینیٹ کے انتخابات بھی وقت پر انجام پا جائیں گے۔
حکومت نے سینیٹ کے انتخابات سے متعلق ایک انتہائی اہم فیصلہ کیا ہے کہ یہ انتخابات بجائے مارچ کے فروری میں انجام پا جائیں۔ اور ووٹنگ ”شو آف ہینڈ“ کے ذریعے کی جائے تاکہ انتخابات کی شفافیت قائم کی جاسکے۔ یہ ایک انتہائی اہم قدم ہے۔ اس سلسلہ میں حکومت نے ایکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس وقت سینیٹ میں 103 ارکان ہیں جس میں سے 52 ریٹائر ہونے والے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی یہ قانونی شق پاس کرنے میں کامیاب ہو گئی کو یہ ایک تاریخی کام ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں