بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 470

عوام، میڈیا، سیاستدان اور عدالتیں

پاکستان اس وقت شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ بین الاقوامی طاقتیں پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور سی پیک کے معاملات میں تحفظات کا شکار ہیں اور آئی ایم ایف کی تلوار کے ذریعہ آہستہ آہستہ پاکستان کی جڑوں کو کاٹا جا رہا ہے۔ ملک کی واحد طاقت پاکستان کی فوج ہے جو بظاہر تو خاموش دکھائی دیتی ہے مگر پردے کے پیچھے ہونے والے فیصلوں نے نہ صرف سیاستدانوں بلکہ میڈیا اور عدالتوں کو بھی دباﺅ میں رکھا ہوا ہے اور یہ دباﺅ روز بروز بڑھتا چلا جارہا ہے۔ نہ کوئی جج اپنی مرضی کے فیصلہ کر سکتا ہے اور نہ کوئی صحافی اپنی صحافتی ذمہ داریاں بغیر کسی دباﺅ کے سر انجام دے سکتا ہے۔ موجودہ حکومت ایک بار پھر مہنگائی کی برہنہ تلوار لئے عوام کے گلہ کاٹنے کے درپہ ہے۔ جب کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین پابند سلاسل ہیں۔ یہ درست ہے کہ بڑے پیمانے پر کرپشن کی گئی ہے۔ یہ بھی سچ ہے بے نامی اکاﺅنٹس کا معاملہ غلط نہیں۔ حال ہی میں جس سیاستدان کو ڈرگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اسے بھی غلط نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سب کچھ کیا جاتا رہا ہے اور جھوٹوں کو پکڑنے کے لئے جھوٹ کا ڈرامہ رچایا جانا بھی شاید مجبوری ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک جانب تو ملک پر آئی ایم ایف کے ذریعہ دباﺅ ڈالا جارہا ہے تو دوسری جانب سیاستدانوں پر کریک ڈاﺅن جاری ہے۔ عدالتون سے فیصلہ بھی نظریہ ضرورت کے تحت ہو رہے ہیں اور ملک میں انارکی کی صورتحال ہے۔ عوام کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ سابقہ حکمرانوں کی حمایت کریں یا موجودہ حکومت کی، یا پھر فوج کی۔ کیونکہ صورتحال انتہائی گمبھیر ہے۔ فوج کی بھوئیں تنی ہوئی ہیں اور ملک کے خلاف بیان دینے والوں یا سابقہ سیاستدانوں کی جماعت میں بولنے والوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ میڈیا پر تنقیدی پروگرام کرنا حرام ہے۔ چینلز کو بند کیا جارہا ہے اور اپنی مرضی کے پروگراموں کو فروغ دیا جارہا ہے۔ عوام کسی معجزے کے انتظار میں ہیں کیونکہ بحیثیت قوم ہم تمام معاملات اللہ کے سپرد کرکے سو جاتے ہیں اور یہی اس بار بھی ہو گا۔ شاید خداوند کریم بھی ہمیشہ پاکستان کو منجھدھار سے اسی لئے نکال دیتا ہے کہ یہ یقین کامل رکھتے ہیں کہ وہ ہماری حفاظت کرے گا مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلی جسے خود اپنی حالت بدلنے کا احساس نہ ہو۔ ہم سیاستدانوں کو تو چور ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں مگر دراصل ہم بحیثیت عوام خود کرپٹ ہیں اور اپنی حیثیت کے مطابق چور بازاری میں مصروف ہیں سو نہ عدالتوں سے انصاف مل رہا ہے اور نہ میڈیا سچ بول رہا ہے۔ حکومت کی رٹ دکھائی نہیں دیتی۔ فیصلے کہاں ہو رہے ہیں سب جانتے ہیں مگر بولنے سے قاصر۔ وزیر اعظم عمران خان جولائی کے تیسرے ہفتہ میں امریکہ آرہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ سیدھے کھڑے رہتے ہیں یا اوندھے منہ واپس جاتے ہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں