امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 361

عورت مارچ: میرا جسم، میری مرضی کی مخالفت

گزشتہ کئی سال سے پاکستان میں کیئے جانے والی عورت مارچ کی کوششو ں کی شدید مخالفت جاری ہے۔ اس سال اس میں اور بھی شدت آگئی جب اس میں حصہ لینے والی کسی خاتون یا نوجوان لڑکی نے ” میرا جسم، میری مرضی “ کا پوسٹر اٹھا لیا۔ اس کی مخالفت میں خواتین کے حقوق کے دائمی مخالفین تو پیش پیش تھے ہی، لیکن اس کے ساتھ اس کے نیم حمایتی بھی عجیب عجیب قسم کی تاویلیں اور اعتراضات اٹھانے لگے۔ یہ کیفیت میں ہم نے کینیڈا میں ان دوستوں میں بھی محسوس کی جو خود کو کھلے بندو ں ترقی پسند یا آزاد خیال ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ خال خال ہی ایسے لوگ ہیں جو خواتین پر کیئے جانے والے جبر اور زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ یہ رویہ ساری دنیا میں تو عام ہے ہی، لیکن اس جبر کی شدت ہمیں ہر اس معاشرہ میں نظر آتی ہے جو کسی بھی مذہب یا روایت کی بنیاد پر عورت کو کم تردرجہ کی مخلوق گردانتا ہے۔ چاہے وہ ہندو، مسلم ، سکھ عیسائی ، یا کسی اور بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو ، یا کسی اور مذہب کو مانتا ہو۔ قدامت پرست معاشرے اس معاملہ میں زیادہ سخت گیر ہیں۔ آپ بارہا بھارت یا پاکستا ن میں اجتماعی زنا بالجبر، عورتوں کے ناک کان کاٹے جانے، ان پر تیزاب پھینکے جانے، اور ان پر ذہنی یا جسمانی تشدد کی خبر پڑھتے سنتے ہوں گے۔ اس ظلم کی شکار خواتین کی شنوائی کم ہی ہوتی ہے۔ اس کی سرکاری شنوائی بھی خال خال ہی ہوتی ہے۔ خاندانی اور معاشرتی عزت کی آڑ میں ایسی مظلوم خواتین پر سخت ترین دباﺅ ڈالا جاتا ہے کہ وہ ظلم کی سرکاری شکایت نہ کریں۔ اگر بالمحال شکایت درج بھی ہوجائی تو مقدمہ کی کاروائی میں برس ہا برس گزر جاتے ہیں۔
دنیا کے ہر ملک میں عورت پر جبر کی تاویل مذہب کے نام پر کی جاتی ہے۔ بالخصوص ان ممالک میں جہاں قانون کو مذہب کے تابع کیا گیا ہے۔ وہ ممالک جہاں مذہب اور ریاستی قانوں کو الگ کر دیا گیا ہے، وہاں یہ جبر روایت اور ثقافت کی آڑ میں کیا جاتاہے۔
پاکستان میں عورتوں کے حقوق کی پامالی کی تاریخ پرانی ہے۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ پاکستان ایک نہایت قدامت پرست معاشرہ ہے، جہاں آئین او ر ریاست کو مذہب کے طابع کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ قیام پاکستان سے اب تک پاکستان کی سیاست ، معیشت اور معاشرت پر مذہب اور مذہبی جماعتوں کا غلبہ رہتا ہے۔ چاہے یہ جماعتیں مختلف الیکش ہاریں یا جیتیں۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ گزشتوں سالوں میں یہ جماعتیں کبھی بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکیں۔ لیکن یہ چور دروازوںسے یا رات کی تاریکی میں سازشیں کرکے حکمرانی پر اثر انداز ہوتی ہیں، یا مختلف قوتوں کا آلہ ءکار بن کر سیاستدانوں کو بلیک میک کرتی رہتی ہیں۔
آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا جب ایسا ہی مذہبی گروہ، ریاستی کاروبار میں رکاوٹ ڈال رہا تھا، تو ایک مقتدر قوت کے نمائند ے اس کو کھلے بندوں رقوم بانٹ رہے تھے۔ جب ایک عدالت نے اس پر اعتراض کیا تو خود جسٹس کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ ایسا ہی گزشتہ ہفتہ کے عورت مارچ پر ہوا جب اس کی مخالفت میں جمعیت علمائے اسلام ،جامعہ حفصہ والے ، منہاج القرآن، جماعت اسلامی ، کے کارکن سڑکوںپر آکر بلا سرکاری اجازت مظاہرے کرنے لگے۔
ان میں سے کوئی بھی یہ اقرار نہیں کر رہا تھا کہ ہمارے معاشرے میں عورتیں کم تر درجہ کی شہری ہیں، بلکہ سب یہ شور مچارہے تھے کہ اسلام نے خواتین کو حقوق عطا کیے ہیں، لیکن یہ نہیں مان رہے تھے کہ، مسلمان مختلف بہانوں سے وہ بھی غصب کر لیتے ہیں۔ اس کی ایک سامنے کی مثال خواتین کو حاصل وراثتوں کا مختصر ترین حصہ بھی ان سے چھین لیا جاتا ہے۔ خواتین کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق نہیں دیا جاتا۔ وہ صحت کی خرابی کے باجود بھی بچے پیدا کرنے پر مجبور کی جاتی ہیں۔ ان کو مانع حمل ذرائع کی اجازت نہیںہوتی، یا حالتِ زنا بالجبر کی صورت میں وہ اسقاطِ عمل اختیار نہیں کر سکتیں، انہیں قرآن کی نہایت کمزور تفہیمات کے تحت خواتین کو پردہ کرنے، نقاب پہننے ، یا حجاب استعمال کر نے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں عام طور پر پردہ نہ کرنے کو فحاشی قرار دیا جاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ روایتوں اور لا علمی کی بنیاد پر خواتین یہ اقرار کرنے پر مجبور ہوتی ہیں کہ انہیں سب حقوق حاصل ہیں اور وہ دیگر معاشروں سے بہتر ہیں۔میرا جسم میری مرضی کا نعرہ، دراصل اسی جسمانی اور ذہنی تشدد کا ردِ عمل ہے جس کی شکار ہماری خواتین رہتی ہیں۔ ہمیں آزادی اظہارکے اصول کے تحت اس نعرہ میں کوئی فحاشی نظر نہیں آتی۔ جو لوگ صرف اس نعرہ پر اعتراض کر رہے ہیں انہیں ایسے مظاہروں میں وہ سب مطالبے بھی دیکھنا ہوں گے، جو خواتین کر رہی ہیں۔ اور یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہیں۔
ہمیں ایک قوم کی حیثیت میں سمجھنا ہو گا کہ ہماری خواتین اپنے حقوق کے لیئے سڑکوں پر کیوں آگئیں۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ ایسا کرنے پر خواتین کیوںمطعون ہوتی ہیں بلکہ قتل تک کی جاتی ہیں۔ جدید میڈیا کے دور میں یہ مطالبے نہ تو دبائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی چھپائے جاسکتے ہیں۔ ہم یہ ضرور کہیں گے کہ یہ ایک طویل سفر ہے ، اور خواتین کو اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے میں سال لگیں گے۔ ہم اپنی خواتین سے صرف یہ کہیں کہ، جدو جہد جاری رکھیں۔ گو سفر کٹھن ہے جیسا کہ فیض نے بھی کہا تھا کہ، ” نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی، چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔“

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں