Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 565

غیر یقینی

موروثی سیاست دانوں اور ان کی اولادوں کے پیچھے چلنے والوں کو اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں کو پی ٹی آئی کی حکومت کسی طرح ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ ہماری ایک مجبوری بھی ہے، ہمارے اباﺅ اجداد جس خطے میں پیدا ہوئے وہاں صدیوں سے غلامی چل رہی ہے۔ جو محکوم ہوتے تھے جب ان کے ہاتھ سے تخت چھن جاتا تھا تو وہ بھی غلامی میں چلے جاتے تھے تو یہ کہنا کہ ہمارے آباﺅ اجداد تو ایران، افغانستان اور عرب سے ہندوستان آئے تھے، کسی گنتی میں نہیں رہتا۔ جس کے ہاتھ سے زمین چھن گئی وہ غلامی میں چلا گیا۔ زیادہ تر افراد جو بادشاہوں کے غلام رہے ان سے نکلے تو انگریزوں کے غلام ہوگئے اس کے بعد انگریزوں سے آزادے کے نام پر جسے جھوٹی آزادی کہنا چاہئے، جاگیرداروں، زمین داروں، وڈیروں اور سرداروں کی غلامی میں چلے گئے۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان موروثی سیاست دانوں اور ملک پر قابض لٹیروں کی اولادوں سے ہم نمک حرامی کریں، ان کی غلامی سے نکل کر ایک عام آدمی کو سربراہ بنا دیں۔ ہمارے آباﺅ اجداد کی روحیں اس غداری پر تڑپ جائیں گی۔ 70 سال کے بعد یہ تبدیلی بھی آئی ہے کہ پہلے جو صرف مخالفت ہوا کرتی تھی اب دشمنی میں بدل گئی ہے۔ ایک حرکت پر اعتراض ہو رہا ہے جو لوگ ابا کی شیروانی سے پیسے چرا کر گول گپے کھایا کرتے تھے، وہ بھی عمران خان کو یوٹرن کا طعنہ دے رہے ہیں۔ کوئی اس بات کو قبول کرنے کو تیار نہیں کہ ایک کرکٹ کا کھلاڑی کیسے ہمارا سربراہ بن گیا۔ مخالفت میں اس کی پچھلی زندگی کی ایک ایک حرکت سامنے لائی جارہی ہے۔ پلے بوائے تھا، کلبوں میں جاتا تھا، لڑکیوں سے دوستی کرتا تھا اور نہ جانے کیا کیا کہا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر پرانی تصویریں اور فوٹوشاپ کرکے بھی اپ لوڈ کی جارہی ہیں۔ ذرا ذرا سی بات ایک گناہ کبیرہ کہہ کر لائی جاتی ہے حالانکہ پاکستانی سیاست دانوں اور ان کی اولادوں کے کارنامے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ہر طرح کی برائیوں اور عیاشیوں میں ملوث ہیں۔ بلاول بھٹو کی تصاویر یوٹیوب پر موجود ہیں۔ نشے کی حالت میں لڑکیوں کے گلے میں ہاتھ ڈالے اور بے شمار عجیب و غریب تصاویر پیپلزپارٹی کے ان غلاموں کو نظر نہیں آتیں یا ان کے نزدیک یہ کوئی برائی نہیں ہے اور وہ ایک وڈیرے خاندان سے تعلق رکھتا ہے لہذا سب جائز ہے۔ غلاموں کی کیا مجال کہ اس کے لیڈر بننے پر اعتراض کرسکیں۔ کوئی ایسا سیاست دان ہے جس کے بارے میں کوئی نہ کوئی بدعنوانی، جھوٹ یا عیاشی کے ثبوت موجود نہ ہوں لیکن کسی کو کوئی اعتراض نہیں، اعتراض ہے تو صرف یہ کہ عمران خان نے یہودی عورت کو مسلمان کرکے شادی کیوں کی۔ پھر پاکستانی عورت سے کی تو اس پر بھی اعتراض کہ آزاد خیال ہے اس کی بھی پرانی تصویریں آگئیں اب پردہ دار خاتون سے شادی کی تو اس کا بھی مذاق ہورہا ہے۔ یہ کیا قوم ہے اور آخر چاہتی کیا ہے؟ بس نہیں چل رہا ہے کہ کسی طرح عمران خان کو وزیر اعظم کی کرسی سے اتار دیا جائے۔ اس مقصد کے لئے تمام چور پارٹیاں اکھٹی ہوگئی ہیں۔ اگر خدانخواستہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تو پھر آپس میں لڑتے ہوئے اور ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہوئے نظر آئیں گے اور بے وقوف عوام ان کی باتوں میں آکر سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور اپنی جانیں بلا مقصد ضائع کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک یوٹرن کے لفظ کو لے کر جس سے جتنا ہو سکا مخالفت میں پورا زور لگادیا۔ یوٹرن کو ایک بہت بڑی گالی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ آج سے پہلے لوگوں نے یوٹرن پر دھیان تک نہ دیا ہوگا لیکن مخالف پارٹیوں کی کوششوں سے یوٹرن کو گالی میں بدل کر لوگوں کے ذہنوں میں بٹھا دیا گیا۔ جن چیزوں کو یوٹرن کہا جارہا ہے۔ پاکستان بننے سے لے کر اب تک یہ چیزیں ہزاروں لاکھوں مرتبہ ہوچکی ہوں گی۔ حکومت میں آنے سے پہلے بڑے بڑے روٹی، کپڑا اور مکان کے دعوے ملک کو قرضے سے نجات اور ترقی کی طرف گامزن کرنے کے وعدے، روزگار مہیا کرنے، غربت ختم کرنے کے وعدے، کچھ بھی پورے نہ ہوئے لیکن چونکہ وہ ہمارے آقاﺅں کی زبان تھی اس لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تمام لوگ اس بات پر متفق رہے کہ یہ تمام دعوے الیکشن مہم کا حصہ ہوتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں تو پھر اب کیا ہوگیا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پی ٹی آئی کے جو بھی وعدے ہوئے تھے وہ الہ دین کے چراغ یا جادو کی چھڑی سے فوراً پورے ہونا چاہئے۔ یہ جتنے بھی مخالفین جو عوام میں سے ہیں ان کے پاس آئندہ کے لئے کوئی بھی پلان نہیں ہوگا اگر ان سے پوچھا جائے کہ عمران خان کی حکومت نہیں چاہئے تو پھر کس کی حکومت آنا چاہئے۔ تو یہ بغلیں جھانکنے لگ جائیں گے۔
یوٹرن آخر ہے کیا؟ زندگی میں کئی مرتبہ انسان بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتا ہے لیکن حالات اور واقعات کی تبدیلی سے فیصلہ واپس لینا پڑ جاتا ہے۔ یہ ایک عام آدمی کی زندگی سے لے کر بڑی بڑی حکومتوں میں ہوتا ہے۔ مصلحت اور دور اندیشی کی بناءپر یوٹرن لینا ضروری ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات کوئی قانون بنایا جاتا ہے یا حکومت کسی بھی پروگرام کے بارے میں قدم اٹھاتی ہے لیکن عوام کے شدید احتجاج اور شدت پسندی کی وجہ سے فیصلہ واپس لینا پڑ جاتا ہے۔ منگلا ڈیم کا منصوبہ ادھورا کیوں رہ گیا؟ کیا یہ یوٹرن میں نہیں آتا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں کئی فیصلے بدلنا پڑے، لیکن میں ایسی کوئی مثال نہیں دینا چاہتا، کیوں کہ لوگ مذہب کے بارے میں بہت جذباتی ہیں۔ لوگوں نے قائد اعظم کی مثال بھی دی تو جناب قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح اپنی کتاب ”میرا بھائی“ میں لکھتی ہیں کہ قائد اعظم کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا، ایک دن اپنے والد سے کہا کہ میں اسکول نہیں جانا چاہتا، میں آپ کے ساتھ دفتر جاﺅں گا اور کاروبار سیکھوں گا۔ ایک ہفتے کے اندر ہی گھبرا گئے اور کہنے لگے میں دفتر نہیں جاﺅں گا، میں واپس اسکول جارہا ہوں۔ یہ پہلا یوٹرن تھا۔ دوسری مرتبہ 1934ءمیں مسلمانوں کے آپس کے انتشار سے تنگ آکر اور ناراض ہو کر لندن واپس چلے گئے لیکن کچھ عرصے بعد علامہ اقبال اور ان کے کچھ ساتھیوں کے اصرار پر واپس آگئے۔ یہ دوسرا یوٹرن تھا جس میں مسلم لیگ کی صدارت قبول کرلی۔ حیرانی تو ایم کیو ایم والوں کے یوٹرن پر مذاق اڑانے پر ہوتی ہے۔ لندن والے بھائی ساری زندگی یوٹرن بناتے رہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ عمران خان کی مخالفت دشمنی میں بدل گئی ہے۔ اس حکومت میں سب کی بدعنوانیاں منظرعام پر آئیں گی۔ جائیدادیں ضبط ہوں گی۔ جیلوں کی ہوا کھانا پڑے گی اور ان کی لپیٹ میں چیلے چپاٹے کارکن بھی آئیں گے لہذا ان کی کوشش ہے کہ اس سے پہلے ہی پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہو جائے اور ان شاءاللہ ایسا نہیں ہوگا۔ ان سب کا انجام بہت قریب ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں