Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 277

غیور قوم

تقریباً چار دہائی پہلے ہم نے اس ملک امریکہ میں قدم رکھا۔ کتنا مشکل ہوتا ہے جس زمین پر جس ملک میں پیدا ہوئے، پلے، بڑھے، وہاں کے دوست، رشتہ داروں، ماحول، ثقافت، اپنائیت، بچپن، لڑکپن چھوڑ کر ایک نئے معاشرے، نئی سرزمین، اجنبی ماحول میں سمونا، اپنی جگہ بنانا، بلاشبہ ایک نہایت ہی مشکل امر ہے۔ یقیناً ہمارے ملک کے بے شمار لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہم جیسے لوگ بہت آرام سکون کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ ملک کو بھول چکے ہیں یا ان کو اب اس ملک کی پرواہ نہیں جہاں وہ پیدا ہوئے۔ بات یہاں تک تو صحیح ہے، آپ کو آپ کی محنت کا صلہ ملتا ہے۔ محنت بے انتہا کرنا پڑتی ہے لیکن آہستہ آہستہ اس انجانی بستی میں اپنا مقام بنا ہی لیتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ اتنی محنت اپنے ملک میں کرتے تو یہاں نہیں آنا پڑتا۔
سوال یہ ہے کہ محنت کہاں کرتے، ہمارے نام پر بنا ہوا ایک ایسا ردی کا ٹکڑا پکڑا دیا تھا جس کی حیثیت کچھ نا تھی اور نام ڈومیسائل تھا، پاکستان کے سب سے بڑے کاروباری حب کا ڈومیسائل اور کہا جاتا تھا کہ یہ ڈومیسائل آپ کے مستقبل کے لئے کام آئے گا۔ تعلیم، روزگار وغیرہ کے لئے۔ پی آئی اے سمیت ملک کے تین بڑے اداروں سے ہنستے ہوئے مذاق اڑاتے ہوئے باہر کردیا کہ بہت ہی بے وقوف آدمی ہے اس ہی شہر کا ڈومیسائل لگا کر لے آیا یہ تو ایک لمبی کہانی ہے بہرحال ہم نے اپنا ملک چھوڑ دیا اور نگری نگری گھوم کر امریکہ کی سرزمین پر سفر کا اختتام کیا۔ سکون کے ساتھ ایک طریقے کے ساتھ زندگی گزری۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی صورت میں بہت اچھی بیٹیاں دیں، سب کچھ ہونے کے باوجود تقریباً تمام خاندان بھائی بہنوں بھانجے بھانجیوں بھتیجے بھتیجیوں رشتہ داروں کے یہاں ہونے کے باوجود یہ کم بخت دل نہیں مانتا وطن کی محبت نہیں نکالتا۔
بس یہی ایک خلش ہے۔ ہم اپنے وطن سے ناراض نہیں تھے ہم ناراض تھے اپنے نظام سے کرپٹ حکمرانوں سے وطن چھوڑنا پڑا، 75 سال سے کرپٹ حکمرانوں نے اس ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور یہ صرف چند خاندان ہیں جن کی موروثی سیاست، موروثی حکمرانی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی، میں بہت حیران ہوتا ہوں، 75 سال پہلے جب ہمارا ملک دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تو ہمارے ملک سے زیادہ غریب زیادہ غیر ترقی یافتہ ملک اس نقشے پر یا تو حال ہی میں نمودار ہوئے یا وہ تھے جو جنگ عظیم میں تباہ ہو گئے اور نئے سرے سے ملک کی تعمیر و نو میں لگے ہوئے تھے۔ 75 میں سے 10 سال ایوب خان کے پاکستان کی تاریخ کی بہترین دہائی تھی پھر یحییٰ خان، پھر بھٹو اور یہیں سے تباہی کا دور شروع ہو گیا۔ رشوت، دونمبری کام پیپلزپارٹی کے وزراءکی سفارشوں پر نوکریاں غرض اوپر کی کمائی کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس نے نسلوں کی نسلوں میں زہر بدیا۔ یہ بھی ایک طویل موضوع ہے جو لوگ اس دور میں اپنے ہوش و ہواس میں تھے، سب جانتے ہیں، 10 سال ایوب خان اور 2 سال یحییٰ خان کے نکال کر 63 سال سے ملک اپنی جگہ پر ہے۔ قرضوں میں جکڑا ہوا صرف ایک تبدیلی آئی کہ نیوکلیئر پاور بن گیا لیکن یہ ترقی تعمیری نہیں کہلا سکتی، طرح طرح کے جدید اسلحے بنانا تعمیر میں نہیں تخریب میں شمار ہوتا ہے۔ بہرحال ہمارے ساتھ یا ہم سے غریب ممالک ہم سے اتنا آگے نکل گئے کہ اب ہمیں ان کے سامنے کاسہ پھیلانا پڑتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے شہباز شریف نے اسے بھکاری قوم کہا ہے۔ مجھے یہاں کوئی فرق نہیں پڑتا پاکستان میں زرداری آئے، نواز شریف، شہباز شریف یا عمران خان، میری زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ میں اپنے پورے خاندان کے ساتھ یہاں ہوں، کسی نے پوچھا پھر یہ سب کچھ کیوں کرتے ہو، کہا پاگل ہوں، جس زمانے میں ہم یہاں آئے معلومات کے اتنے وسائل نہیں تھے، فون پر ہی تمام خبریں یا بڑی خبریں یہاں کے ٹی وی یا اخبارات سے معلوم ہو جاتی تھیں، ہم اس دور میں بھی دوستوں، رشتے داروں سے فون کرکے باخبر رہتے تھے۔ کیوں بس جنوں سمجھ لو پھر جب انٹرنیٹ آیا، فیس بک، واٹس ایپ تو ہمیں بہت سہارا ملا، یہاں رہ کر میں نے ریڈیو پروگرام بھی کیا، اخبار میں کالمز لکھے، اپنے ملک کے اپنے لوگوں کے اپنی اردو زبان کے اخبار کے ساتھ چپکا رہا، ریڈیو پروگرام ہو یا اخبار، ہم صرف اپنے وطن کی بات کرتے تھے، ہمیں محبت تھی، وہاںکی گلیوں سے، وہاں کے لوگوں سے، لیکن سوشل میڈیا میں بہت سے تلخ تجربات ہوئے، بہت اچھے اچھے محبت کرنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ کئی برے لوگ بھی ملے، بہت سے لوگوں کو بلاک کرنا پڑا، کیوں کہ وہ ہمارے اس خلوص کو وطن سے محبت کو جھوٹا سمجھتے تھے، دل شکنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا، طنز کے تیر چلانا، طعنے دینا کہ وہاں بیٹھ کر باتیں بنا رہے ہو، اتنی محبت ہے تو یہاں آکر کرو نا، بارہا سمجھانے کی کوشش کی کہ یہاں رہ کر ہم جو لکھ سکتے ہیں، جو محکموں کو بے نقاب کر سکتے ہیں، لوگوں کو آگاہی دلا سکتے ہیں، وہاں رہ کر شاید نا کر سکیں۔ شاید گولی کا نشانہ بنا دیئے جائیں، جواب آتا ہے تو بہادری کی موت ہے، تنگ آکر ہم نے کہا اگر ہم جیسے تمام وہاں جا کر بہادری کی موت مر جائیں گے تو تم جو ستو پی کر سوئے ہوئے ہو تمہیں کون جگائے گا؟
پھر اچانک چار سال پہلے امید کی ایک کرن نظر آئی، عمران خان پورا یقین تھا کہ یہی وہ شخص ہے جو ملک کو دلدل سے نکالے گا، لیکن عام لوگوں کے منہ پر جو اوپر کی کمائی کا خون لگا ہوا تھا وہ کیسے اس کو برداشت کرتے، یہ وہ لوگ تھے جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ زرداری کرپٹ ہے اسے سپورٹ کرتے رہے، یہ وہ لوگ تھے جن کے سامنے نواز شریف کا تمام کچھا چٹھا آچکا تھا لیکن وہ پھر بھی اسے سپورٹ کرتے تھے۔ جو دوسری پارٹیاں عمران خان کے ساتھ ہو گئیں تھیں، تین سال میں اس لئے بے زار ہو گئے کہ اوپر کی کمائی میں بہت رکاوٹیں آچکی تھیں لہذا تمام چور اور ان کا ساتھ دینے والوں کی عوام میں ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ ہو گئی۔ ان کو ملک سے نہیں صرف مال سے محبت ہے۔ اس قوم کو نہیں معلوم کہ انہوں نے ہیرے کو کوئلے میں پھینکنے کی کوشش کی ہے اور کوئلے کو اٹھا کر ہیرے کی جگہ لگا دیا ہے۔ ملک وہیں ہے جہاں تریسٹھ سال پہلے تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں