بہت دیر کی مہرباں آتے آتے، حسن عسکری بھائی کو صدارتی تمغہءحسنِ کارکردگی مبارک 98

فنکاروں کی سرکاری حوصلہ افزائی

ہمارے ملک میں ہر سال مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے پر سِول سرکاری انعامات اور تمغہ کے دیے جاتے ہیں: نشانِ پاکستان، نشانِ امتیاز، نشانِ قائدِ اعظم، نشانِ شجاعت، نشانِ خدمت۔پھر ہلال ِ پاکستان، ہلالِ امتیاز، ہلالِ قائدِ اعظم، ہلالِ شجاعت، ہلالِ خدمت۔اس کے بعد ستارہ پاکستان، ستارہ امتیاز، ستارہ قائدِ اعظم، ستارہ شجاعت، ستارہ خدمت۔پھر تمغہء ِ پاکستان، تمغہء امتیاز، تمغہء قائدِ اعظم، تمغہءشجاعت، تمغہءخدمت۔ اِن میں سب سے اعلیٰ ترین سِول انعام صدارتی تمغہئ حسنِ کارکردگی ہے۔ اِن سِول انعامات کا آغاز 19 مارچ 1957سے شروع ہوا جب 1956 میں پاکستان جمہوریہ کا آئین بنا۔ یہ انعامات عام طور پر ہر سال یومِ آزادی کے پر مسرت دن 14 اگست کو اعلان کر کے آئندہ سال 23 مارچ کی ایک پروقار تقریب میں دیے جاتے ہیں۔ صدارتی تمغہءحسنِ کارکردگی ممتاز اور شاندار کارکردگی دکھانے یا طویل خدمات کے صلے میں فنون، ادب، سائنس، کھیل اور فلاحِ انسانیت کے شعبوں میں دیے جاتے ہیں۔دسمبر کے مہینے میں کبنیٹ ڈویژن متعلقہ وزارتوں اور ڈویژنوں سے اس انعام کے مستحق اور اہل لوگوں کے نام مانگ لیتا ہے۔ پھر وہ نام تین عدد ایوارڈ کمیٹیوں سے گزرکر شارٹ لسٹ ہوتے ہیں اور پھر مجوزہ انعام کے مستحق نام صدرِ پاکستان سے حتمی منظوری لینے بھیج دیے جاتے ہیں۔اس کے بعد اِن ناموں کا اعلان 14 اگست کو کر دیا جاتا ہے اور پھر آنے والے سال 23 مارچ کو اسلام آباد /راولپنڈی کے رہنے والوں کو صدرِ پاکستان اور صوبوں میں رہنے والوں کو متعلقہ گورنر یہ د یتے ہیں۔ فنکاروں کو یہ انعام دیے جانے کے طریقہءکار پر میری کچھ عرصہ ادھر نیاز حسین لَکھویرا صاحب سے بات ہوئی۔ یہ لاہور آرٹس کونسل میں کو اورڈینیٹر / انچارج رہے ہیں۔ موصوف خود بھی شاعر، ادیب، موسیقی اور تھیٹر سے وابستہ رہے ہیں۔ فنکار وں کو تراشنے کا فن بخوبی جانتے ہیں۔ ان کا یہ جوہر فنکاروں کو ملنے والے صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی اور تمغہ امتیاز کی صورت میں نظر آتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ استاد فتح علی خان، استاد سلامت علی خان، حسین بخش گلو، اسد امانت علی، حامد علی خان، شوکت علی، نصرت فتح علی، عطاءاللہ عیسی خیلوی، ریشماں، پرویز مہدی، منیر حسین، سائیں ظہور، عارف لوہار کو انہوں نے آرٹس کونسل کی جانب سے صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی ستارہ ءامتیاز کے لئے نامزد کیا۔ پھر اِن سب خوش نصیبوں کو یہ تمغے بھی ملے۔نامزدگی کی پالیسی کے بارے میں انہوں نے بتایا : ” ہم حکومتِ پنجاب کو صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی یا دیگر اعزازات کے لئے فن و ثقافت کے میدان کے کچھ نام بھیجتے ہیں۔ آرٹس کونسل کے علاوہ صوبوں کی سطح کے تمام سرکاری ثقافتی ادارے جیسے ریڈیو پاکستان، پی ٹی وی وغیرہ بھی اپنے اپنے طور پر کچھ نام بھیجتے ہیں۔پھر ایک کمیٹی اِن ناموں پر غور کرتی ہے۔ وفاق پنجاب کے ساتھ باقی تین صوبوں کے فنکاروں میں 100 سے 150 خوش نصیبوں کو منتخب کرتا ہے۔ سب سے زیادہ نام صوبہ سندھ سے آتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہاں کا محکمہ ثقافت صحیح طور پر کام کرتا ہے۔15 سے 20 سال قبل موسقار وزیر افضل کا نام بھی میں نے ہی بھیجا تھا۔اور وہ اعزاز پانے والے خوش قسمت ثابت بھی ہوئے“۔یہ تمہید ہے کہ ہمارے ملک کے کئی ایک نامور فنکار اور تکنیک کار اوپر درج کئے گئے انعامات سے محروم ہیں۔یہ ہی توہمارے فنون کا سرمایہ ہیں۔نہ جانے سرکاری طور پر کیوں ان کی زندگی میں ان کی قدر نہیں کی جا رہی۔ہمارا کام ہے اربابِ اختیار کی توجہ دلانا سو وہ ہم کرتے رہیں گے۔گزشتہ کالموں میں ہم نے ریڈیو پاکستان میں زندگی بھر خدمات انجام دینے اور 1965 کی جنگ کے دوران اکثر مشہور ترین ملی ترانے تیار کروانے والے محمد اعظم اور ہماری فلمی دنیا میں اپنی بہترین صلاحتیں دکھانے والے حسن عسکری بھائی کے بارے لکھا تھا۔اِن سنہری لوگوں میں صابرہ سلطانہ بھی شامل ہیں جن کا فنی سفر صابن یا کریم کے اشتہار میںکام کرنے سے شروع ہوا۔پھر ریڈیو پاکستان کراچی سے ڈرامہ بھی کیا۔ ان کی پہلی فلم ” انصاف “ (1960) سلور جوبلی ہوئی۔ اس وقت تاریخی فلمیں بہت بنتی تھیں۔ کہا جاتا تھا کہ صابرہ سلطانہ شہزادی یا ملکہ کے کردار کے لئے بہت موزوں ہیں۔ انہوں نے ہیروئن کے ساتھ ٹائٹل رول بھی ادا کئے۔ اپنے عروج میں انہیں ” ملکہءحسن “ کا خطاب دیا گیا تھا۔ 60 سال سے زیادہ فن کی خدمت کرنے والی ہمارے ملک کی اس نامور فلم اور ٹیلی وژن فنکارہ کو حکومتِ پاکستان نے ابھی تک تمغہئ حسنِ کارکردگی سے نہیں نوازا۔ یہ ہر طرح سے اِس تمغے کی نہ صرف اہل بلکہ حق دار ہیں۔ میری الحمرا لاہور، پی این سی اے ، کلچر ڈپارٹمنٹ اور وزارتِ اطلاعات و نشریات کے اربابِ اختیار سے درخواست ہے کہ وہ اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہوئے یہ نیک کام کر کے شکریہ کا موقع دیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں