Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 420

قاتل وبا

اٹلی یوروپ کے وسطی جنوب میں واقع ہے اس کے کئی جزیرے ہیں لیکن ایک جزیرہ ساری دنیا میں مشہور ہے اور اس کی وجہ شہرت شاید عالمی جرائم پیشہ تنظیم مافیا ہے کیونکہ بدنام زمانہ تنظیم نے سسلی کے ایک علاقے پالیرمو میں جنم لیا تھا۔ اس تنظیم کو کئی دہائیوں کی کوششوں اور کئی جانوں کے نذرانے دینے کے بعد اتنا کمزور کردیا گیا کہ وہ صرف ایک علاقے تک محدود ہو گئی اور اس کی سرگرمیاں دوسرے علاقوں یا ملکوں میں ہی محدود ہیں۔ بہرحال یہ جزیرہ اسی حوالے سے مشہور ہے۔
تیرہویں صدی میں سسلی کی بندرگاہ میسینا پر 12 بحری جہاز لنگر انداز ہوئے۔ معمول کے مطابق بندرگاہ کا عملہ اور مزدور وغیرہ سامان کی جانچ پڑتال کرنے اور اسے جہازوں سے اتارنے کے انتظامات کے لئے جہازوں پر چڑھے تو ایک عجیب ہی منظر سامنے تھا۔ جہازوں میں زیادہ تر افراد مردہ تھے۔ ان جہازوں پر مال بردار جہازوں کے علاوہ چند مسافر بردار بحری جہاز بھی تھے۔ وہ عجیب بلکہ خوفناک اور دہشت زدہ کردینے والا منظر جہازوں پر مردہ افراد کو دیکھنے کے علاوہ یہ تھا کہ ان جہازوں پر جو افراد زندہ تھے وہ اتنے لاغر اور بیمار تھے کہ مردوں کے برابر ہی تھے۔ ان کے جسموں پر آبلے جیسے تھے جن سے خون اور پیپ بہہ رہا تھا۔ سسلی کی انتظامیہ نے فوراً ہی ان خونی جہازوں کو بندرگاہ سے دور لے جانے کا حکم دیا۔ لیکن جب تک اس وباءنے جو کہ جہازوں پر پھیلی ہوئی تھی۔ بندرگاہ اور اس شہر کے کافی لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پھر یہ تیزی سے پورے یورپ میں پھیل گئی اور اس کے نتیجے میں دو کروڑ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ جہازوں کو بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے سے پہلے ہی بے شمار لوگ یہ خبر سن چکے تھے کہ ایک خطرناک وباءپھیلی ہوئی ہے جو کہ ان تمام ممالک میں ہے جو یوروپ سے تھوڑا دور ہیں لیکن تجارتی جہاز ان ممالک کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے ہیں ان ممالک میں چین پہلے نمبر تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ اس وباءکا مرکز چین ہے۔ یہ طاعون کی وباءتھی جو کالے چوہوں سے پھیلی تھی۔ یوروپ میں یہ افواءگرم تھی کہ یہ طاعون کی وباءچائنا، انڈیا، ایران، شام اور مصر میں پھیلی ہے۔ اس وقت چونکہ اطلاعات و نشریات کا کوئی سلسلہ نا تھا۔ لوگوں کو صرف دوسرے ملکوں سے آنے والوں سے خبریں ملتی تھیں۔ نشر و اشاعت ناپید تھی۔ اس طاعون کی بیماری سے سوجن ہو جاتی تھی، خون رسنے لگتا تھا، اس کے علاوہ بخار، متلی اور جسم میں درد ہوتا تھا اور چند دن میں ہی مریض دم توڑ دیتا تھا۔ یہ بیماری بہت جلد ایک شخص سے دوسرے شخص میں وائرس کی شکل میں منتقل ہوتی تھی۔ آہستہ آہستہ یہ بیماری فرانس، برطانیہ پھر پورے یوروپ اور ایشیا میں پھیل گئی اور نہ صرف انسانوں میں بلکہ یہ وباءجانوروں میں بھی پھیل گئی تھی۔ نظام زندگی معطل ہو چکا تھا۔ اسٹور بند ہو گئے، لوگ مضافاتی علاقوں کی طرف بھاگنے لگے اور اس کا علاج دریافت کرنے کی سرتوڑ کوششیں ہو رہی تھیں۔ لیکن ناکامی ہو رہی تھی اور اموات بڑھتی جارہی تھیں۔ لوگ ایک دوسرے کے قریب نہیں آرہے تھے، مریضوں کو بھی دور رکھا جارہا تھا اس کے باوجود یہ وباءتیزی سے پھیل رہی تھی۔ اس وقت لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید خدا ناراض ہو گیا ہے۔
خیال رہے کہ مذاہب علیحدہ علیحدہ ہیں لیکن خدا سب کا ایک ہی ہے۔ فرق نبیوں کے درجے اور بعض نبیوں کی ذات سے ہی انکار ہے۔ لوگوں نے عبادتیں شروع کردیں۔ ان میں ایک گروپ ایسا بھی تھا جو کہ ماتمی گروپ تھا یہ لوگ اپنے آپ کو مار مار کر یعنی ماتم کرکے سزا دے رہے تھے کہ ہمارے اعمال کی وجہ سے یہ مصیبت آئی ہے۔ تمام سائنس دان اس وقت اس بات پر متفق تھے کہ یہ وباءچوہوں کی وجہ سے آئی تھی لیکن آج تک سائنس دان اس تحقیق پر لگے ہوئے ہیں کہ چوہوں سے یہ وباءکس طرح پھیلتی ہے۔
کچھ موسم کا اثر ہوتا ہے یا کوئی اور چیز ایسی پیدا ہوتی ہے کہ جو طاعون کے وائرس چوہوں سے انسان میں منتقل ہوتے ہیں۔ طاعون کی بیماری آج بھی ہوتی ہے چونکہ اس کا علاج دریافت ہو گیا تھا تو مریض جلد ہی صحت مند ہو جاتا ہے۔ تین سال پہلے لندن کے علاقے کلرکینویل میں ریلوے لائن بچھانے کے لئے کھدائی ہو رہی تھی تو وہاں سے تقریباً 25 انسانی کھوپڑیاں اور کچھ ڈھانچے ملے جن کا ڈی این اے کرنے پر پتہ چلا کہ یہ سب اسی قاتل وباءکا شکار ہوئے تھے۔ یعنی طاعون کا۔ اس پورے علاقے میں تیزی سے مرنے والوں کو اجتماعی طور پر دفنایا گیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس وباءسے 1347 سے 1351 کے دوران 20 کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ طاعون کی یہ وباءان چوہوں سے پھیلی تھی جو بحری جہازوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے دوسرے ممالک جاتے تھے۔ یوروپ کی ایک بڑی آبادی اس وباءکا شکار ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایشیا اور عرب کے ممالک بھی لپیٹ میں آئے۔ اس کی وجہ شاید یہی ہے جو اس وقت کے لوگوں نے سوچی کہ شاید خدا ناراض ہے اور وہ سب عبادت میں لگ گئے اس طرح کی مصیبتیں اس وقت نازل ہوتی ہیں جب مذہب کو خدا کو اور مذہبی امور کو رسمی طور پر نبھایا جانے لگتا ہے۔ لوگ خدا کو صرف رسمی طور پر یاد کرتے ہیں اور اس کے احکامات پر کان نہیں دھرتے۔ انسان اپنے آپ کو خدا کا درجہ دینے لگتا ہے تب خدا عذاب نازل کرتا ہے اور انسان کو اتنا بے بس کر دیتا ہے کہ پھر وہ دل سے خدا سے رحم کی اپیل کرتا ہے اسے یاد کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے پھر عذاب کا خاتمہ ہوتا ہے اگر دھیان دیں تو ایسا ہر سو سال کے بعد ہوتا ہے۔ کوئی بڑی تباہی کوئی بڑی مصیبت یا کوئی بڑی وائرس کی وباءیہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک لوگ سچے دل سے اللہ کو یاد کرنا شروع نہیں کرتے۔ عذاب آتے رہیں گے۔ لوگ اپنی بے بسی کا تماشہ دیکھیں گے اور پھر اس بات پر سچا ایمان لائیں گے کہ ہماری ذات کچھ بھی نہیں سب کچھ اللہ کی ذات ہے۔ لیکن معلوم نہیں کب انسان کا غرور اس کا گھمنڈ ختم ہوگا کب اس کے ظلم سے کمزوروں کو چھٹکارہ ملے گا۔ کورونا کا عذاب کچھ بھی نہیں اگر انسان اسی طرح رہا تو مزید عذاب بھی آئیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں