Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 274

لکیر کے فقیر

ہم ساری زندگی کچھ نا کچھ سیکھتے رہتے ہیں۔ مختلف تجربات سے گزرتے ہیں، مختلف حالات مختلف حادثات ہماری زندگی میں آتے ہیں، ہم زندگی سے بہت کچھ سیکھتے ہیں، لیکن صرف سیکھنے میں ہی وقت گزارتے ہیں، اس پر عمل کرنے کا ہمیں موقعہ نہیں ملتا اور نا ہی ہمارے پاس ٹائم ہوتا ہے کیوں کہ لڑکپن اور جوانی کی بے شمار مصروفیات ایسی ہوتی ہیں کہ جو کچھ ہم نے زندگی سے سیکھا ہوتا ہے اس پر عمل نہیں ہو پاتا اور جب ہم چونک کر سر اٹھاتے ہیں اور قدم بڑھاتے ہیں کہ ان تجربات اور اس سے سیکھنے پر عمل کریں تو وقت گزر چکا ہوتا ہے ہم ایک پانچ کلو کا تھیلا بھی اٹھانے لگتے ہیں تو کوئی بچہ بڑھ کر کہتا ہے ارے چاچا لائیں میں اٹھا دیتا ہوں۔ کہیں پیدل جارہے ہوں تو کوئی کہتا ہے ارے چاچا کہاں جارہے ہیں، آئیے میں موٹر سائےکل پر چھوڑ دوں آپ حیران ہو کر اپنے اوپر نظر ڈالتے ہیں کہ یار میں تو پہلے جیسا ہی ہوں لیکن کوئی آپ کی بات ماننے کو تیار نہیں ہے۔ نتیجے میں آپ کو کندھے ڈھیلے کر دینا پڑتے ہیں۔ آپ نے اپنی سوچوں میں اپنے مشاہدے سے بہت کچھ سیکھا، بہت تجربات حاصل کئے لیکن بدقسمتی سے لکیر کے فقیر بن رہے اس سیکھنے سے ان تجربات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اپنے اندر کوئی تبدیلی نہیں لاسکے۔ اب اگر ہم اپنے تجربات اپنے علم سے نوجوانوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ہماری بات ایک کانس ے سن کر دوسرے سے اڑا دیتے ہیں، ہماری نصیحت اور سنہری باتوں کو زندگی کے تجربے کو یہ کہہ کر اڑا دیتے ہیں کہ اگ ران نصیحتوں ان سنہری باتوں میں کوئی جان ہے تو خود فائدہ کیوں نہیں اٹھایا ہم لکیر کے فقیر تھے۔
بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں لکیر کے فقیر لیکن کبھی بھی اس پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی کہ آخر یہ لکیر کے فقیر کیا ہوتے ہیں، کوئی شخص اپنا نظریہ نا بدلنا چاہے یا اپنی سوچ نا بدلنا چاہے تو کہا جاتا تھا وہ تو لکیر کے فقیر ہیں۔ جیسے جیسے عمر کی حدیں پھلانگیں بہت سی چیزوں کا بہت سی باتوں کا مشاہدہ کیا۔ قریب سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ پھر ہم نے غور کیا تو معاشرے میں بے شمار لکیر کے فقیر نظر آئے۔ انڈیا سے جو لوگ ہجرت کرکے آئے اور جو اس حصے میں پہلے سے رہ رہے تھے ان سب میں ایک طبقاتی فاصلہ نظر آیا، یہ طبقاتی تقسیم پاکستان بننے سے پہلے سے ہی موجود تھی۔ ہندوﺅں میں تو خیر ذات پات کی بہت زیادہ ہی اہمیت تھی لیکن یہ زیر انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں میں بھی سرایت کر چکا تھا۔ انڈیا میں رہنے والوں سے یہ نا سمجھا جائے کہ وہ لوگ جو انڈیا سے ہجرت کرکے آئے، ایک بہت بڑی ناسمجھی اور لاعلمی کی بات یہ ہے کہ جب بھی پاکستان بننے سے پہلے کے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو لوگ فرض کر لیتے ہیں کہ وہ مسلمان جو موجودہ انڈیا کے حصے میں رہتے تھے ایک بنیادی بات یہ بھلا دی جاتی ہے کہ موجودہ پاکستان بھی انڈیا میں شامل تھا اور یہاں کے رہنے والے بھی انڈین مسلم ہی کہلاتے تھے بہرحال یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ ہمارے موجودہ معاشرے میں بھی لوگوں کے پیسے کے حساب سے طبقات کی ایک لکیر بنا دی گئی ہے۔ ایک طبقاتی لکیر تو وہ ہے جو لوگوں کے معاشی حالات سے بنی ہے یعنی ایک غریب آدمی کی اولاد پہلے سے ہی یہ فرض کر لیتی ہے کہ وہ غریب گھرانے میں پیدا ہوئے اور انہوں نے غربت کے عالم میں ہی اس دنیا سے جانا ہے۔ انہوں نے اپنا ذہن بنا لیا ہوتا ہے۔ لہذا نا ہی تعلیم کے میدان میں اور نا ہی اپنے حالات بدلنے کی جدوجہد پیدا ہوتی ہے۔ اپنے باپ کی طرح خود بھی کوئی چھوٹی موٹی نوکری پکڑ لیتے ہیں۔ فیکٹری، مل یا کسی کارخانے سے شام کو کام ختم کرکے آتے ہیں تو رات گئے تک ڈبو، کیرم، یا تاش کھیلتے ہیں ان میں یہ سوچ ہی پیدا نہیں ہوتی کہ اس فالتو وقت کو کسی علمی یا تعمیری کام میں خرچ کریں۔ اسی طرح متوسط طبقے کا فرد سوچتا ہے کہ وہ ہمیشہ اوسط درجے کی ہی زندگی گزارے گا۔ وہ تعلیم ہی حاصل کرتا ہے تو بینک میں یا آفس میں اپنے والد کی جگہ لے لیتا ہے اسی طرح ایک امیر گھرانے کا چشم و چراغ اپنی کوتاہیوں سے غریب بھی ہو جائے تو اس کی اکڑ ختم نہیں ہوتی وہ ہمیشہ اپنے آپ کو امیر گھرانے کا چسم و چراغ ہی سمجھتا رہتا ہے۔ نخوت ہوتی ہے ہر کسی کو خاطر میں نہیں لاتا، اسی طرح پیشے کے لحاظ سے ذاتوں کی تقسیم ہوئی، بچپن سے یہی سنا کہ فلاں شخص ذات کا قصائی ہے یا ذات کا کنجڑا ہے یا درزی ہے یا نانبائی ہے۔ یہ تمام طبقات والے اپنی اپنی لکیروں پر چلتے رہے، فصائی کے بیٹوں کو قصائی ہی بننا تھا اسی طرح درزی نانبائی اور کینجڑے۔
اب اس سلسلے میں تھوڑی سی تبدیلی آئی ہے، لوگ اپنے لکیر سے ہٹ کر دوسرے پیشے اپنا رہے ہیں اور کچھ تعلیم کی طرف ہی توجہ دے رہے ہیں لیکن بہت کم ہیں پیشوں کی اس تقسیم کے بے شمار نوجوانوں کو نقصان پہنچایا ایک اوسط درجے کا شخص اگر بی اے تک تعلیم حاصل کر لیتا ہے تو اسے صرف کسی آفس میں وائٹ کالر جاب چاہئے، نوکری نا ملے بھوکا مر جائے گا۔ یا بہت کم تنخواہ پر رو رو کر گزارا کرے گا لیکن ٹیکسی ویگن نہیں چلائے گا۔ فروٹ کا ٹھیلا، چائے کا کھوکھا نہیں لگائے گا۔ ایسا صرف پاکستان انڈیا میں ہے اور کسی ملک میں نا ہی جدی پشتی پیشے ہوتے ہیں اور نا ہی ان سے منسلک ذات ہوتی ہے۔ یہ پنچائیت صرف ہمارے ہی مک میں نظر آتی ہے۔
بہرحال تجربات اور مشاہدات اسی وقت کارآمد ہوتے ہیں جب ان سے استفادہ حاصل کیا جائے۔ جس شخص میں احساس کی ہلکی سی بھی رمق ہوتی ہے اسے کوئی واقعہ کوئی حادثہ بدل دیتا ہے اس کی سوچ بدل جاتی ہے، مجھے ایک کہانی یاد آرہی ہے، ایک شخص بہت ہی سنجیدہ مزاج کا تھا، اسکول کالج ہر جگہ وہ بور شخص کے نام سے مشہور رہا، نا اسے لوگوں میں گھلنے ملنے کی عادت تھی اور نا ہی اس پر کوئی بات اثر کرتی تھی، الگ تھلگ سپاٹ چہرے کے ساتھ رہتا تھا، تعلیم سے فراغت کے بعد اس نے نوکری کی لیکن اپنے سپاٹ چہرے اور الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے کمپنی میں کوئی مقام نا بنا سکا اور جلد ہی اس کی چھٹی ہو گئی، دو نوکریوں کے بعد جب تیسری نوکری سے اس کے باس نے چلا کر اسے کہا کہ تم ایک ناکارہ شخص ہو، زندگی میں کبھی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتے، وہ بہت دل برداشتہ اور اداس تھا اور حیران بھی کہ وہ پوری ایمان داری اور محنت سے نوکری کررہا ہے، پھر اس کے ساتھ ایسا کیوں ہے۔ یہی سوچتا جارہا تھا کہ ایک بچہ اس کے سامنے آگیا، اس کے ہاتھ میں کچھ پھول تھے، بچہ کہنے لگا صاحب یہ پھول خرید لو، اس نے بچے سے پوچھا کہ وہ یہ پھول کیوں بیچ رہا ہے، بچے نے کہا کہ باپ بیمار ہے، بھوک اسے یہ پھول بیچنے کو مجبور کررہی ہے۔ زندگی میں پہلی بار کسی با تکا اس پر اثر ہوا، اس نے بچے سے کئی پھول خرید لئے، وہ جیسے جیسے اس بات پر سوچتا گیا اور اپنے آس پاس نظریں دوڑاتا گیا تو اسے بہت سے مقامات پر بھوک نظر آئی جس سے بہت کمزور لوگ جنگ کررہے تھے۔ اس نے بھوک کو مٹانے کا فیصلہ کیا، اپنے محلے دوستوں رشتے داروں کے پاس گیا ان کو سب ماجرہ سنایا اور تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرتا گیا اور بھوکوں کو کھانا مہیا کرتا رہا، آہستہ آہستہ اس نے ایک این جی او کی بنیاد ڈالی، محنت اور لگن سے اس کی این جی او ایک بہت بڑی اور نامور مقام پا گئی۔
ایک مرتبہ وہ کسی جگہ مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا کیوں کہ وہ اب ملک کی ایک نامور شخصیت بن چکا تھا۔ اس محفل میں ایک شخص نے اس کا استقمال کیا اور اسے اسٹیج کی طرف لے جانے لگا تو اس نے اس شخص سے پوچھا ”آپ نے مجھے پہچانا؟“ استقبال کرنے والے نے کہا آپ ایک مشہور شخصیت ہیں، آپ کو کون نہیں جانتا تو اس نے کہا نہیں ”میں وہ شخص ہوں جس سے آپ نے کہا تھا تم زندگی میں کوئی بڑا کام نہیں کرسکتے“۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں