Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 474

محرومیت

ہمارے محلّے سے کچھ فاصلے پر یوں کہنا چاہئے کہ دوسرے محلّے میں ہمارے ایک عزیز رہتے تھے چونکہ ان کے بچّے ہمارے ہم عمر تھے لہذا ہم ان کے گھر کھیلنے چلے جایا کرتے تھے۔ان کے پڑوس میں ایک شخص رہتا تھا ۔بہت ہی شفیق اور مہربان تھا۔وہ کوئی کاروبار کرتا تھا اور اچھّا خاصہ مالدار تھا۔جب بھی آموں کا موسم آتا تو یہ محترم آموں کی پیٹیوں کی پیٹیاں باقاعدہ سوزوکی پر منگواتے اور اپنے بچّوں کے ذریعے نہ صرف محلّے کے بچّوں کو بلوا کر کھلاتے بلکہ دور درازمحلّوں میں بچّوں کے لئے بھجواتے تھے۔ہر آموں کے موسم میں ہر روز ان کا یہی دستورتھا۔مجھے بڑی حیرت ہوتی تھی کہ آخر اس شخص کو آموں کا اتنا جنون کیوں ہے۔اور پھر ایک دن یہ عقدہ کھلا کہ اس کے پیچھے ایک کہانی ہے اور وہ کہانی کچھ یوں ہے کہ یہ شخص جس کا نام اکبر تھا اس کے والد کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرتے تھے اور ایک ایسی آبادی میں رہتے تھے جہاں ملی جلی حیثیت کے لوگ رہا کرتے تھے۔بدقسمتی سے اکبر کے والد ایسے بیمار ہوئے کہ کاروبار پر بھی کافی اثر پڑا اور کھانے کے لالے پڑ گئے۔ لیکن تھوڑا بہت دال روٹی پر گزارا ہورہا تھا۔اکبر کے پڑوس میں بھی کھاتے پیتے لوگ رہا کرتے تھے۔آموں کے موسم میں پڑوس کے لوگ آم لے کر آتے تو چھلکے اکبر کے گھر کی دیوار کے ساتھ ہی ڈال دیتے تھے اکبر بچّہ تھا للچائی نظروں سے چھلکے دیکھا کرتا ۔کبھی کبھی وہ پڑوس کے دالان میں ہوتا تو ان لوگوں کو آم کھاتے دیکھتا۔نتیجے میں اس کو ان گھر والوں سے دھتکار ملتی اور اسے کہا جاتا کہ دفع ہوجاو¿ یہاں سے ندیدے !! ہمارے بچّوں کو نظر لگارہا ہے۔ اس ناروا سلوک سے اس کا دل بہت کڑھتا تھا۔پھر اس نے عزم کیا کہ وہ خوب محنت کرے گا اور ایک دن بڑا آدمی بنے گا۔اس نے اپنی پوری توجّہ صرف تعلیم پر خرچ کی۔گھر کے حالات بھی تھوڑے بہت گزارہ لائق بہتر ہورہے تھے۔۔اکبر پڑھائی کی دھن میں لگار ہا ۔اس کی محنت رنگ لائی۔اس نے اپنے باپ کے ہی کاروبار کو اپنی محنت سے آگے بڑھایا اور ایک دن حقیقت میں وہ بڑا آدمی بن گیا لیکن وہ بچپن کی اس محرومی کو بھلا نہ سکا وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے آس پاس کوئی بھی بچّہ آم کے چھلکوں کو حسرت سے تکتا رہے۔ 2016کی بات ہے کہ ایک خبر نظر سے گزری کہ ملّا فضل اللہ اور اس کا خاندان پاکستانی فوج کے ایک ہوائی حملے میں مارا گیا۔پتہ نہیں اس خبر میں کہاں تک صداقت ہے لیکن اس خبر کو سننے کے بعد مجھے 2014 کا ایک واقعہ یاد آگیا۔جب پاکستان کے بزدل وزیراعظم نے طالبان اور ملّا فضل اللہ سے مذاکرات کی ٹھانی۔اس طرح کے دہشت گردوں اور قاتلوں ،لٹیروں سے مذاکرات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حکومت اور فوج نے اپنی ناکامی تسلیم کرلی اس صورت میں ناکام حکومت کو قائم رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔لیکن اس کے باوجود قائم ہے۔بہرحال وزیراعظم نے مذاکرات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی اور اس کمیٹی میں صحافی اور جنگ کے ایک کالم نگار کو شامل کیا۔وہ صحافی حضرت خوشی سے پھولے نہ سمائے اور اتنے جذباتی ہوگئے کہ ملّا فضل اللہ کی تعریفوں میں ایک لمبا کالم لکھ مارا۔عنوان تھا ” ملّا فضل اللہ کی زندگی کے روشن پہلو “لکھتے ہیں۔حضرت مولانا ملّا فضل اللہ مرد حق ،مرد مومن،اور مرد درویش ہے۔ان کا دل موم کی مانند ہے۔ان کا دل پھول کی اس پتّی کی مانند ہے جس سے ہیرے کا جگر بھی تراشا جاسکتا ہے۔آگے چل کر انہوں نے اسی کو ناتراشیدہ ہیرے سے مثال دے دی۔اور کہا کہ اگر اس ہیرے کو تراش لیا جائے تو زمانہ روشن ہو جائے گا۔وہ کمیٹی کا ممبر بننے کی خوشی اور جذبات میں نہ جانے کیا کیا لکھتے چلے گئے۔دنیا کے کسی بھی ملک میں اس طرح کے دہشت گرد اور ایسے شخص کے لئے جس کی گردن پر بے شمار بے گناہ عورتوں بچّوں کا خون ہوگا معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ،حیرت کی بات ہے کہ یہ موصوف کس طرح سے اس کی وکالت کررہے تھے کہ اسے چھوڑ دیا جا ئے اور اس کے ساتھ ہی اس کے ساتھ اپنا کوئی تعلّق بھی جوڑ رہے تھے۔اس کو مظلوم ثابت کرنے کے لئے موصوف کا کہنا تھا کہ ملّا فضل اللہ کا بچپن سماج کے ناروا سلوک کا شکار رہا ہے ،اور اس نے بہت سختیاں جھیلی ہیں۔ان بھائی سے کوئی یہ پوچھے کہ کیا یہ صرف ایک ہی بچّہ پورے پاکستان میں تھا جو ناروا سلوک کا شکا ر رہا۔پاکستان بننے سے لے کر آج تک بے شمار بچّے محرومیت ،نفرت اور ناروا سلوک کا شکار ہوتے ہیں تو کیا سب بڑے ہوکر قتل و عام شروع کردیں۔بات دراصل یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں جنون ہوتا ہے کسی میں بہت زیادہ اور کسی میں بہت کم اور کچھ لوگوں میں با لکل بھی نہیں۔اس جنون کا اظہا رمختلف طریقوں سے ہوتا ہے۔کوئی شخص کسی غلط بات پر بہت زیادہ غصّے میں آجاتا ہے جسے جنون کا ہی نام دیا جاتا ہے اس جنونی کیفیت میں وہ چیختا چلّاتا ہے اور گالیاں بکتا ہے۔جنون جب اس سے زیادہ بڑھتا ہے تو برتن اور دوسری چیزیں توڑنا شروع کردیتا ہے۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی رسائی کسی اسلحے تک نہیں ہوتی نہ انہوں نے کبھی اسلحے کی شکل دیکھی ہوتی ہے لیکن ایسی ہی جنونی کیفیت میں اگر کسی کے ہاتھ اسلحہ لگ جائے تو وہ اسے استعمال کرنے سے باز نہیں رہ سکتا۔امریکہ میں بھی بعض اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں کہ اسکول کا کوئی بچّہ اپنے باپ کا پستول لے کر اسکول پہونچ گیا اور اس نے دوچار کو مار دیا ،یہ وہی جنونی کیفیت ہے کہ جب اس بچّے کے ہاتھ اسلحہ لگا تو استعمال کرکے قتل میں ملوّث ہوگیا حالانکہ اسے کبھی کوئی محرومی نہیں رہی اور نہ ہی کبھی کوئی نفرت ملی۔ ملّا فضل اللہ کا تعلّق ایک ایسے علاقے سے تھا جہاں بچپن سے ہی کھلونوں کی جگہ اسلحے سے کھیلا جاتا ہے۔جہاں بچّہ بچّہ اسلحہ بنانا اور چلانا جانتا ہے۔پہلے اسے استعمال کرنے کا کم ہی موقعہ ملتا تھا۔کبھی جانوروں یا پرندوںپر استعمال کرلیا اور دشمنی کی بنائ پر انسانوں پر بھی استعمال کرنے کا موقعہ مل جاتا تھا۔یہاں کے رہنے والے سب سے زیادہ پیار اسلحے سے ہی کرتے ہیں۔اور جب فضل اللہ کو موقعہ ملا تو اس نے بے دردی سے لوگوں کا قتل عام کیا جس میں پشاور کے طلباء بھی شامل ہیں۔ایسے وحشی اور قاتل کی حمایت یا سفارش کرنا یا اسے بخش دینا میرے خیال سے تو کسی طرح بھی مناسب نہیں تھا۔پاکستان میں 75 فیصد افراد غربت کا شکار ہیں اور 40 فیصد انتہائی غربت کے درجے پر ہیں غریب کے بچّوں پر ظلم اور ان سے نفرت ،حقارت ایک عام سی بات ہے۔یہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے اور ہورہا ہے نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا میں جہاں جہاں غربت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سب کے سب قاتل بن جاتے ہیں ۔۔۔۔ ان علاقوں میں جہاں ہمیشہ سے اسلحہ زیور کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے وہاں کے رہنے والوں میں سے کچھ جنونی افراد کے رویّے ان کی وحشت کا صرف مذہب سے کوئی تعلّق نہیں ہے۔بلکہ اس کی وجہ مذہب،ثقافت اور ان کے ماحول کا ملا جلا اثر ہے۔اگر انسان کے دماغ میں مختلف افکار و خیالات اور واقعات کا ایک جمّ غفیر ہو تو دماغ میں بھونچال آجانا لازمی امر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں