بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 339

مسائل کی آماجگاہ پاکستان

عمران خان وزیر اعظم بنے تو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں نے بھی شکرانے کے نوافل ادا کئے تھے کہ چلیں گزشتہ کئی دہائیوں سے ملک پر قابض ٹولے سے جان چھوٹی اور عمران خان نے آکر 30 فیصد حالات بھی درست کر لئے تو ملک آہستہ آہستہ مضبوطی کی جانب گامزن ہو جائے گا مگر معاملات اس کے برعکس دکھائی دے رہے ہیں۔ کئی لاکھ درخت، کئی لاکھ ملازمتیں، کئی لاکھ گھروں کی تعمیر، پاکستان کو قرضوں سے پاک کرنا، یہ سب کچھ شیخ چلی کے خواب ثابت ہوئے یا پھر یہ ثابت ہوا کہ ملک پر قابض وہ نہیں تھے جنہیں آج تک الزامات لگا کر برطرف کیا جاتا رہا یا خون میں نہلایا جاتا رہا بلکہ ملک کے قابض وہ طبقہ ہے جو اسٹیبلشمنٹ کہلاتا ہے۔ جن میں سب شامل ہیں اور جو سب کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ وہ سب کون ہیں۔ ہمارے آرمی جرنلز، ہماری بیورو کریسی، ہمارے کچھ وڈیرے، خان اور چوہدری۔ یوں جب تک اس ناسور سے چھٹکارا حاصل نہیں ہو گا۔ کچھ بھی نہیں بدلے گا۔
عمران خان کے بعد کسی اور کھلاڑی کو بیٹنگ کرانے کا موقع فراہم کیا جائے گا اور یوں چہرے بدلتے رہیں گے، نہیں بدلے گا تو پاکستان۔ سابقہ حکمرانوں نے خوب لوٹ مچائی اور پورے اسٹیبلشمنٹ نے اس گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ اب سیاستدانوں کو بھی اس لوٹ کے مال کی اجازت نہیں ہے۔ اب صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کے پیٹ کا جہنم ہی بھر جائے تو بہت ہے۔ پاکستان کے عوام تو ”زندہ لاش“ ہیں اور رہیں گے، کسی نے کیا خوب لکھا کہ ہم وہ قوم ہیں کہ کوئی ہمیں ایک ٹماٹر خراب دے دے تو ہم اس سے لڑنے لگتے ہیں مگر جو پورا ملک لوٹ کے کھا جائے ہم خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ گزشتہ 70 سالوں سے ہم نے جئے بھٹو، جئے بے نظیر، جئے الطاف حسین، جئے نواز شریف، جئے پاک فوج، اسلام اور پاکستان کے نعرے سنے مگر نہ تو کسی ایک کو چھوڑا گیا اور نہ کسی ایک کے لئے عوام نے اپنی رات کی نیندیں حرام کیں۔
اپنے حق کے لئے کسی نے باہر نکلنا گوارا نہ کیا۔ عوام کی معصوم بچیوں کو گینگ ریپ کیا جارہا ہے۔ عوام کو نہ پیٹرول دستیاب ہے۔ نہ آٹا، نہ چینی، سبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ بھوک پاکستان کے ہر دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ لاکھوں نوکریاں فراہم کرنے کا وعدہ کرنے والی حکومت نے اسٹیل ملز کے ملازمین کی پیٹ میں بھی چھرا گھونپ دیا ہے۔ پاکستان ایئر لائن کا مستقبل بھی تاریک نظر آتا ہے اور جلد پی آئی اے کے ملازمین بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنے والے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ٹڈی دل نے پاکستان کی زرعی زمینوں پر حملہ کر دیا ہے اور یوں آنے والے وقت مزید مہنگائی کی نوید سناتا دکھائی دے رہا ہے۔ حکومتی بیان بازیاں جاری ہیں۔ سب کچھ پہلے جیسا ہی ہے۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔ بدلا ہے تو صرف یہ کہ اب سیاستدانوں کو کھلا کھانے کو نہیں مل رہا بلکہ پہلے جنگل کا شیر اپنا پیٹ بھر رہا ہے اور جنگل کا شیر جسے عرف عام میں آپ اسٹیبلشمنٹ کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اب شاید کسی نئے سیاستدان کو نہ کھانے دے کیونکہ ملک کی بقاءاور سلامتی اور عوام کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ نہ صرف باہر کی قوتوں کو شیر کی دھاڑ سے ڈراتے رکھا جائے بلکہ اپنے ملک پر بھی شیر کا خوف طاری رہے اور جب کہیں ملک کے اندر اور باہر بغاوت کی بو آئے اُسے سختی کے ساتھ کچل دیا جائے کیونکہ دُشمن تو دُشمن ہوتا ہے خواہ ملک سے باہر ہو یا ملک کے اندر اور اسے ختم کرنا جہاد بھی ہے اور اسلام کے عین مطابق کیونکہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور اسلام کے قلعہ کی بقاءاور سلامتی کے لئے جان دینا شہادت کے رتبہ کی ضامن ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں