Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 334

مشیرانِ حکومت

دُنیا کے کسی بھی ملک میں قائم ہونے والی حکومت کسی ایک شخص سے نہیں چلتی ہے۔ وہ کوئی بادشاہ ہو، وزیر اعظم ہو یا کسی مملکت کا صدر ہو۔ اسے اپنے آس پاس کچھ مشیروں اور وزیروں کی ضرورت رہتی ہے۔ حکومت اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب اس میں مشیر اور وزیر قابل اعتماد اور ذہین ہوں۔ بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد جو بھی پارٹی حکومت میں آئی وہ کرپٹ ہی نکلی، حکمران سمیت تمام مشیر اور وزیر کرپٹ ہی تھے اور اگر غلطی سے کوئی ایمان دار شخص آ بھی گیا تو اسے نہایت خاموشی سے ایک کنارے کردیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ وزیر اعظم ایک محب وطن، سچا، ایماندار آدمی ہے لیکن اسے بھی ایسے ساتھیوں کی ضرورت تھی کہ جن کے تعاون سے وہ حکومت میں آسکے۔ لاہور جلسے کی کامیابی کے بعد لوگ تحریک انصاف میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ اور اس میں ہر طرح کے لوگ شامل ہوئے۔ سرمایہ دار، جاگیردار، وڈیرے، ان میں سے بے شمار ہمیشہ سے بدعنوان ہی رہے اور ان کا خیال تھا کہ حکومت میں آکر وہ پی ٹی آئی کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیں گے۔ لیکن پی ٹی آئی میں عمران خان سمیت کچھ دوسرے محب وطن اور ایماندار لوگ ان کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ جنگ جاری ہے۔ پی ٹی آئی کی اندرونی سازشیں پھر باہر والوں کی مخالفتیں عمران خان کے لئے درد سر بنی ہوئی ہیں۔ عمران خان نے کچھ پرانے بدنام سیاست دانوں کو کیوں لیا، ایک اور چین کی کہانی سناتا ہوں۔
221 قبل مسیح سے 475 قبل مسیح کا دور چین میں ریاستی جنگوں کا دور کہلاتا ہے۔ اس دور میں ایک ریاست ہوا کرتی تھی یان YAN چین اس دور میں مختلف ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ ریاست یان کنگ زاہو کے قبضے میں تھی یہ ایک کمزور ریاست تھی اور اس کے بادشاہ کو ہر وقت یہ خطرہ لاحق رہتا تھا کہ کوئی جنگ کرکے اس ریاست پر قبضہ نہ کرلے۔ وہ اپنی ریاست کو مضبوط بنانا چاہتا تھا تاکہ وہ دوسری ریاستوں کے حملوں سے محفوظ رہ سکے۔اسی فکر مندی اور پریشانی میں اس نے اپنے ایک وزیر گیووی سے کہا کہ ہمارے پاس ذہین لوگ نہیں ہیں جو ہمارے لئے کام کر سکیں اور میری ریاست کو اپنی حکمت عملی سے مضبوط بنائیں۔ ایسے ذہین لوگ ہمارے پاس کیسے آسکتے ہیں۔ جواب میں گیووی نے کنک زاہو کو ایک کہانی سنائی کہ کسی زمانے میں آپ ہی کی طرح ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا وہ ایک ایسے گھوڑے کی تلاش میں تھا جو انتہائی تیز رفتار ہوتا ہے اور اس کی تیز رفتاری کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ ہوا میں سفر کرتا ہے اور لوگ اسے پروں والا گھوڑا کہتے ہیں۔ اس گھوڑے کی نسل نایاب تھی۔ اور نہایت ہی قیمتی کہلاتا تھا۔ بادشاہ نے اپنے ایک وزیر کو سونے سے بھری ایک تھیلی دی کہ منہ مانگی قیمت پر یہ گھوڑا کہیں سے بھی خرید کر لاﺅ۔ وزیر گھوڑے کی تلاش میں نکل گیا۔ لمبے لمبے سفر اور بارہا کوششوں کے بعد بھی وہ یہ گھوڑا حاصل نہ کر سکا۔ لیکن اس تلاش میں اسے اس گھوڑے کی ہڈیاں مل گئیں۔ سو وہ انہی کو لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ اس نے وہ گھوڑے کی ہڈیاں بادشاہ کی خدمت میں پیش کیں جو وہ سونے کی آدھی تھیلی کے بدلے میں لایا تھا۔ بادشاہ ان ہڈیوں کو دیکھ کر آگ بگولا ہو گیا کہ میں اس مرے ہوئے گھوڑے کی ہڈیوں کا کیا کروں گا۔ وزیر نے ہاتھ جوڑ کر کہا بادشاہ سلامت جان کی امان پاﺅں تو کچھ عرض کروں۔ بادشاہ نے کہا، کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔ وزیر نے بڑی عاجزی سے کہا حضور والا جب لوگوں میں یہ خبر پھیلے گی کہ بادشاہ سلامت نے صرف اس گھوڑے کی ہڈیوں کی اتنی بھاری قیمت ادا کی ہے تو اصلی گھوڑے کی کیا قیمت ادا کی جائے گی۔ یقین جانئیے یہ سن کر کوئی نہ کوئی شخص آپ کے پاس گھوڑا بیچنے آ جائے گا۔ اور ایسا ہی ہوا جب یہ خبرعام ہو گئی کہ بادشاہ نے گھوڑے کی ہڈیوں کی اتنی بڑی رقم ادا کی ہے تو کچھ ہی عرصے میں تین گھوڑے بادشاہ کے پاس آگئے۔ کنگ زاہو اپنے وزیر کی یہ کہانی بڑے غور سے سن رہا تھا۔ کہانی کے اختتام پر اس نے جھنجھلا کر کہا۔ میں نے تمہیں ذہین لوگ جمع کرنے کے لئے کہا تھا اور تم یہ گھوڑے کی ہڈیوں والی کہانی لے کر آگئے۔ مجھے اپنی ریاست کو مضبوط بنانے کے لئے ذہین لوگ درکار ہیں۔ ان ہڈیوں کا ذہین لوگوں سے کیا تعلق۔ گیووی نے بڑے اعتماد سے کہا تعلق ہے حضور۔ بس ایک شرط ہے۔ آپ میرے ساتھ اس مرے ہوئے گھوڑے کی ہڈیوں جیسا سلوک کریں گے۔ کنگ زاہو نے حیرت سے کہا کیا مطلب؟ مطلب یہ ہے کہ آپ مجھے ذہین آدمی کا لقب دے دیں اور مجھ پر نوازشوں کی بارش کردیں۔ کچھ عرصے بعد آپ کے محل میں ذہین لوگوں کی لائن لگ جائے گی۔ کنگ زاہو کو گیوی کی یہ تجویز بہت پسند آئی اس نے فوراً ہی گیووی کو ذہین ترین شخص کا خطاب دیا اسے اپنے استاد کا درجہ دیا اس کے لئے ایک قیمتی محل بنوایا اور اس پر تحفے تحائف کی بارش کردی۔ کچھ ہی دنوں میں یہ خبر چاروں طرف پھیل گئی اور اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد تمام ریاستوں کے مانے ہوئے ذہین اور قابل ترین افراد جن کا نام آج بھی تاریخ میں رقم ہے کنگ زاہو کے گرد جمع ہو گئے۔ ان میں جوزنگ، ہوارئی، زویویان، جی پائی جیسے نامور نام شامل ہیں۔ ان افراد کے شامل ہونے کے بعد کنگ زاہو کی ریاست یان تمام ریاستوں کی تاج بن گئی۔ اور ان کے مشورے سے کنگ زاہو نے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں۔
عمران خان نے بھی پاسکتان کو کنگ زہاو کی ریاست یان بنانے کی کوشش کی لیکن بدقسمتی سے گھوڑے کی ہڈیاں لانے والا وزیر ہی بے ایمان تھا وہ اصلی گھوڑے کی ہڈیاں نہیں لایا۔ نتیجے میں عمران خان کے گرد بے نسلی کچھ گھوڑے اکھٹا ہو گئے جو اس ریاست کی بھلائی کے لئے نہیں بلکہ برائی کے لئے کام کررہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں