بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 224

معاشرہ کی اصلاح وقت کی اہم ضرورت

گزشتہ منگل اسلام آباد میں عمران خان نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسانی معاشرہ کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے کہ قانون کی حکمرانی ہو۔ ان کا بیان تو یقیناً حقیقت پر مبنی ہے مگر کیا پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہے؟ یا کیا گزشتہ دو سالوں میں معاشرہ کو بہتر بنانے کے لئے موجودہ حکومت نے اقدامات کئے؟ ماڈل ٹاﺅن کا واقعہ ہوا تو عمران خان نے قوم کو اس کے خلاف موبالائز کیا، ان کے ہم رکاب مولانا طاہر القادری تھے جنہوں نے متاثرہ خاندانوں کو جو ان مولانا صاحب کی محبت اور عقیدت میں اپنی فیملیز کو لئے روڈ پر دھرنا دیئے بیٹھے تھے، سے انصاف دلانے تک چین سے نہ بیٹھنے کا وعدہ تو کیا مگر بعدازاں کینیڈا کے مہنگے ترین علاقہ اوک ول میں محل نما گھر میں چین سے بیٹھے ہیں اور سکون کی بانسری بجا رہے ہیں۔ ان کی مسلمانیت اور ان کی تبلیغ جاری اور ساری ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ کس کے اشارے پر وہ فعال ہوئے تھے اور پھر کس کی ہدایت پر کینیڈا آکر چھپے بیٹھے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم جس معاشرہ کی مضبوطی کی بات کرتے ہیں، وہاں ہر روز کوئی نہ کوئی بدترین واقعہ رونما ہو رہا ہے۔ یہ کہنا کہ ملک میں قانون کی بالادستی ہونا چاہئے مگر عدالتی نظام پر توجہ نہ دینا ایک دیوانے کی بھڑک سے زیادہ نہیں۔ وزیر اعظم اگر حقیقی معنوں میں ملک میں انصاف کا بول بالا چاہتے ہیں۔ معاشرتی تفریق کو مٹانا چاہتے ہیں تو پھر لنگرخانے کھولنے کی بجائے لوگوں کے لئے ملازمت کے مواقع پیدا کرنے پر کام کریں۔ گورنمنٹ کے تعلمی اداروں کو مضبوط کریں اور انہیں اس قدر معیاری بنائیں کہ لوگ گورنمنٹ اسکولوں میں بھی فخر سے پڑھ سکیں۔ اگر وہ ایلیٹ کلاس اور غریب کلاس کی تفریق مٹانا چاہتے ہیں تو پھر غریب کو انصاف دلانے کے لئے نکل کھڑے ہوں اور اس تحریک کی لاج رکھیں جس کو مدنظر رکھ کر انہوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تھا اور اپنی جماعت کا نام بھی تحریک انصاف رکھا تھا۔ ہماری تو وزیر اعظم سے مودبانہ گزارش ہے کہ ریاست مدینہ کا خواب عوام کو دکھانا چھوڑ دیں کیونکہ یہ تو ناممکن نظر آتا ہے، نیا پاکستان بھی عوام کو خوفزدہ کررہا ہے چنانچہ اسی پاکستان کو بہتر بنا دیں جو ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیں دیا تھا۔ جہاں فوجی جنرلوں، ملاﺅں اور بیوروکریسی کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی بلکہ جہاں حقیقی معنوں پر عوامی آواز کو سنا جانا تھا مگر پاکستان کو بنانے والے تو چلے گئے مگر پاکستان کے وجود کی مخالفت کرنے والے ایک خاص پلاننگ کے تحت عوام کے سروں پر مسلط کر دیئے گئے اور وہ خاندان جو ایوب خان کے دور میں 22 گنے جاتے تھے آج پاکستان اور دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں اور ان کی اولادیں بے راہ روی کا شکار ہو چکی ہیں کیونکہ ان کے والدین نے دولت کی دیوی تو انہیں کھیلنے کے لئے دے دی مگر تربیت نہیں دی اور یہی وہ خرابی ہے جس نے ہمارے پورے معاشرہ کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے چنانچہ محترم وزیر اعظم صاحب آپ خوابوں کی دنیا سے باہر آجائیں اور حقیقت کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کریں اور کچھ کرنا ہے تو کر گزریں، بیانات دے کر عوام کا وقت ضائع نہ کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں