Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 381

معزّز بازار حسن

پیپلز پارٹی کا دور تھا۔وطن میں فری لانسر رپورٹر کی حیثیت سے کچھ عرصے کام کیا کرائم رپورٹنگ بھی کی اور یہ وہی دور تھا جب کچھ لکھنے لکھانے کی طرف توجّہ بڑھی۔ایک نئے رسالے دلہن سے ایک مضمون پر ایوارڈ ملا تو شوق کو اور ہوا ملی۔ اس زمانے میں کچھ سیاسی رہنمائوں اور وزیروں کے اسکینڈلز زبان زد عام تھے۔اپنے کام کے سلسلے میں ہمیں خفیہ طور پر تحقیقات کرنا پڑتیں تھیں اور یوں سمجھ لیں کہ باقاعدہ جاسوسی کرنے کا کام انجام دینا پڑتا تھا۔اسی دوران کسی نے ہمیں جام صادق کے پیچھے لگادیا۔جاسوسی شروع کردی اور تحقیقات ہمیں کراچی کے بازار حسن تک لے گئی۔اس بازار حسن میں بڑے بڑے انکشافات ہوئے جنہوں نے آگے چل کر ہمیں پاکستان کے تقریبا” تمام ہی بڑے بازاروں کی سیر کرادی۔ لیکن ان بعد کے انکشافات اور تحقیقات کا جام صادق کے کیس سے کوئی تعلّق نہیں تھا۔بلبل ہزار داستان نیپئیر روڈ بازار حسن کی نئی بلڈنگ تھی جہاں مجرے ہوا کرتے تھے۔نیچے دکانیں تھیں جہاں خورشید درزی کی دکان تھی۔اور ہم نے خورشید کی دکان پر بیٹھ کر کسی کا انتظار کرنا تھا۔بہانے کے لئے اسے ایک قمیض سینے کے لئے دینا پڑی۔وقت گزاری کے لئے خورشید سے ادھر ادھر کی باتیں شروع کردیں تقریبا” ایک گھنٹے کے بعد وہ آگیا جس کا بے چینی سے انتظار تھا۔اس کا نام امجد علی تھا ایک خوبصورت نوجوان ہم نے اپنے پلان کے مطابق اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن ایک دو باتوں کے بعد اس نے کسی بھی قسم کی بات کرنے سے انکار کردیا اور تیز تیز قدموں سے چلا گیا۔ یہ سب لوگ کون تھے؟
آئیے میں ان سب کا تعارف کرادوں خورشید درزی کی ایک بہن تھی روما جو کہ اس بازار میں گانے گاتی تھی۔اور امجد علی ان دونوں کا سوتیلا بھائی تھا اور یہ امجد علی جام صادق علی کا سگا بیٹا تھا۔امجدعلی کی ماں طلعت اسی بازار حسن کا حصّہ تھی۔ایک بے انتہا خوبصورت عورت نہ جانے کیا وجہ تھی کہ جام صادق نے ایک طویل عرصے تک طلعت کو اپنی رکھیل بنانے کے باوجود اسے بازار حسن میں رہنے دیا۔چونکہ جام صادق کا خون تھا اس لئے جام صادق نے اس کو ،کے ،ایم ،سی میں خانہ پری کے لئے ایک اہم عہدہ دلوادیا تھا جہاں صرف حاضری لگوانے جانا پڑتا تھا۔امجد علی ہو بہو اپنے باپ کی جوانی تھا۔ میری یہ تمام رپورٹ ایک رسالے اشتراک میں شائع ہوئی اور اس کا جو ردّ عمل ہوا اس کے لئے مجھے ملک سے باہر کچھ عرصے کے لئے روپوش ہونا پڑا۔ یہ وہ دور تھا جب بازار حسن ایک جگہ خاص علاقے تک محدود تھا لیکن بعد میں اس کی کوئی حد نہ رہی اور صورت حال آج بھی ویسی ہی ہے کیوں کہ زمانہ بدل گیا ہے ،اب ” سب چلتا ہے “کا دور ہے۔زمانوں کا جب موازنہ کیا جاتا ہے تو ہمیشہ پچھلے دور کو موجودہ دور سے بہتر ہی کہا جاتا ہے۔اور حقیقت بھی یہی ہے موجودہ دور کی خرابیوں کو معاشرے کی برائیوں کا زمّہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ بے راہ روی، فحاشی ،نشہ آور اشیا کے حصول میں آسانی اور بازار حسن۔ لیکن پچھلے دور سے اگر موازنہ کیا جائے تو پاکستان بننے سے پہلے ہمارے آبائو‌اجداد جس ماحول میں رہ رہے تھے اس میں ہر طرح کی آزادی تھی۔ہر طرح کی برائیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ اسلامی اور غیر اسلامی ماحول ساتھ ساتھ چل رہا تھا ۔شراب و شباب سب کچھ موجود تھا لیکن ایک بڑی تعداد ان سے دور تھی انہوں نے قدروں کو تھاما ہوا تھا عزّت،تہذیب ، خاندانی وقار اور روایات کے پابند رہے۔ فی زمانہ یہ تمام چیزیں ناپید ہیں۔اب ہم ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں سب چلتا ہے۔ گدھے ،کتّے اور سوئوور کا گوشت عام جام بک رہا ہے اور لوگ گوشت کھانا نہیں چھوڑتے کیوں کے سب چلتا ہے۔بازار حسن کے پھول کسی خاص مقام کسی خاص چمن سے نکل کر ہر طرف پھیل گئے ہیں۔بازار حسن میں مٹر گشتی کے دوران کندھے پر رومال ڈالے دلّال قریب آکر رازداری سے کہتے تھے مزے کرنے ہیں تو آئو میرے ساتھ ۔گانا سننا ہے یا کچھ اور بھی ،یہ ایک مخصوص طبقہ ایک مخصوص نام سے مشہور تھا۔پرانے گاہکوں سے تو بے تکلّفی بھی ہوجاتی تھی۔ مختلف انداز کے جملے ہوتے تھے “آئو بھئی بڑے عرصے بعد نظر آئے آئو عیّاشی کرادوں کیا یاد کروگے ” ارے آئیے آج تو آپ کو ایسا گانا سنوائیں گے کہ یاد کروگے “موڈ ہے تو چلیں کچھ تفریح ہوجائے ” یہ وہ جملے تھے جو بازار حسن تک محدود تھے اب یہ جملے معزّزین کی محفلوں میں سننے میں آتے ہیں ایک دوسرے سے کام نکالنے کے لئے پیشکش کی جاتی ہے۔” میری دوست “کہہ کر تعارف اور پیش کیا جاتا ہے ۔یہ سب کئی کاروباری حضرات،سیاسی،شو بزنس سے تعلّق رکھنے والے خوشی خوشی کررہے ہیں کیونکہ سب چلتا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کا شمار مہذّب، تعلیم یافتہ،اور امرا میں ہوتا ہے دوسرے شہر سے جب کوئی بڑا افسر یا کاروباری شخص آتا ہے تو اس کے ماتحت افسران اس کی خوشنودی کے لئے شراب و شباب کا اہتمام کرتے ہیں غیر ملک سے اپنے وطن یا اپنے وطن سے غیر ملک کوئی ایسا شخص جاتا ہے جو کسی کام کا ہوتا ہے۔تو اس کے لئے یہ تمام لوازمات ہوتے ہیں “بابو جی کڑی چاہئے”خاص طور پر پولیس افسران جو دوسرے ممالک صرف تفریح کے لئے جاتے ہیں وہاں اپنے ہم وطن معزّز کہلانے والے ان کے لئے تمام لوازمات کا انتظام کرتے ہیں۔کیوں کے کام کا بندہ ہے اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑجائے کیوں کہ آج کل سب چلتا ہے۔جملے وہی ہوتے ہیں۔آو¿ یار تمھیں عیّاشی کرادوں۔چلو تفریح کرتے ہیں۔چلو تمھیں زبردست بندی سے ملواتا ہوں کیا یاد کروگے۔اب ان الفاظ میں کوئی برائی نہیں ہے یہ بازار حسن سے نکل کر شرفا کی محفلوں میں پہونچ چکے ہیں ۔ہر شخص اپنا مطلب نکالنے کے لئے شراب و شباب مہیّا کررہا ہے پولیس افسران ہوں یا کسی بھی اعلی’ محکمے کے افسران جس کسی سے بھی کام نکل سکتا ہے اس کی خدمت اور خوشنودی کے لئے اچھّے خاصے مہذّب،تعلیم یافتہ اور معزّز کہلانے والے لوگ ہر اس خدمت کے لئے تیّار کھڑے ہوتے ہیں جو کبھی بازار حسن کا حصّہ تھی لیکن ان کو وہ نام نہیں دیا جاتا کیوں کہ آج کل سب چلتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں