پاکستان اور 8 فروری 2024ءانتخابات 334

منظر نامہ

ڈیموکریٹک پارٹی کے نامزد امیدوار جوبائیڈن امریکہ کے 46 ویں صدر منتخب ہو گئے۔ کمالہ ہارس جو کہ اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھتی ہیں نے ان کے نائب صدر ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ ان کے والد کا تعلق میکا اور والدہ ہندوستان سے تعلق رکھتی ہیں۔
امریکہ کی تاریخ میں کسی الیکشن میں اتنی کثیر تعداد میں ووٹ نہیں ڈالے گئے جتنے اس انتخابات میں رائے دہندگی کا حق استعمال کیا گیا۔ جوبائیڈن نے امریکہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ انتخابات کے دن سے لے کر جوبائیڈن کی فتح کے اعلان تک کا وقفہ امریکی عوام کے لئے انتہائی اضطراب اور بے چینی کا عرصہ تھا۔ بیلٹ کے اندراج اور شمار کے طریقے چونکہ خاصے مرحلہ ہیں۔ یہاں صدر کا انتخاب پاپولر ووٹ کے بجائے الیکٹرول کالج کے پیمانے پر چلنے کا یہ طریقہ امریکہ میں کئی دہائیوں سے رائج ہے اس کی بنیادی وجہ امریکہ میں بسنے والی وہ آبادی جو کہ ووٹ دینے کا اختیار نہیں رکھتی تھی کو اس گنتی میں شامل کر لینا تھا جو کہ علاقوں میں آبادی کے تناسب سے کی جاتی تھیں اور پھر اس تناسب سے مختلف ریاستوں کو الیکٹرول ووٹ دے دیئے جاتے تھے۔ امریکہ ایک بڑی جمہوری حکومت کی حیثیت رکھتا ہے مگر اس وقت اس انتخابی نظام پر ہر طرف سے چہ مگوئیاں جاری ہیں۔ امریکہ کی مکمل آبادی اب انتخابات کے عمل میں شامل کردی گئی ہے۔ آئین اور قانون کے مطابق اب اس پیچیدہ نظام یقینی طور پر اصلاح کی ضرورت ہے۔ اب اس طریقہ کار کی ثقافت پر سوال اٹھایا جارہا ہے۔ 2016ءکے انتخابات میں ہیلری کلنٹن صدر ٹرمپ سے کہیں زیادہ پاپولر ووٹ لینے کے باوجود الیکٹرول ووٹوں کی وجہ سے شکست سے دوچار ہوئیں۔
تاحال صدر ٹرمپ نے بائیڈن کی فتح اور اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا ہے اور اس کے خلاف عدالتوں اور متعلقہ اداروں میں اپیل کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے، صدر بش اور الگور کی درمیان انتخابات کے نتیجے میں ہونے والے سلسلوں کے ایک دفعہ پھر رونما ہونے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ جس کے تحت صدر ٹرمپ کئی ریاستوں میں پاپولر اور الیکٹرول ووٹ میں تفریق کی اپیل کرسکتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہی کہ 2016ءکے انتخابات میں جن 306 الیکٹرول ووٹ کو لے کر انہوں نے شاندار فتح کا اعلان کیا تھا اس وقت وہ بائیڈن کے انہی 306 کو شکست قرار دے رہے ہیں۔ جوبائیڈن جب پہلی دفعہ سینیٹر منتخب ہوئے اس وقت وہ سینیٹ کے لئے منتخب ہونے والے سب سے کم عمر امیدوار تھے۔ بائیڈن کا سیاسی کیریئر بہت ہی پر اثر تسلیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی ذاتی زندگی میں بھی دشواریوں کا سامنا ہمت اور جوانمردی سے کیا ہے، وہ سیاسی حلقوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں اس وقت ان کا منتخب ہونا ڈیموکریٹک پارٹی کے لئے ایک بڑی فتح کی صورت میں آیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے دور حکومت ایک مختلف انداز حکومت اپنایا تھا انہوں نے ”سب سے پہلے امریکہ“ کا نعرہ بلند کیا مگر اس کے نتیجے میں امریکہ کی سپرپاور حیثیت نہ صرف دھچکا لگا بلکہ کئی محاذ پر تنہائی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان کے عرصہ حکومت کے دوران داخلی اور خارجی محاذوں پر ری پبلکن پارٹی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اوبامہ کیئر سے لے کر ٹیکس ریفارمز، ایرانی نیوکلیئر ڈیل سے انحراف، ماحولیاتی معاہدہ سے اخراج، امیگریشن پر پابندیاں، مسلم ممالک اور اقلیتوں پر سخت پابندیوں نے امریکہ کی داخلی صورت حال میں شدید کشیدگی کو ابھارا۔ عالمی طور پر پھیل جانے والی وبا کرونا وائرس کو بھی غیر ذمہ دارانہ انداز میں نبٹنے کی نا اہلیت بھی اس وقت ان کی شکست کا ذریعہ ثابت ہوئی ہے اس کے علاوہ صدر ٹرمپ کو اپنے گزشتہ انتخابات میں بیرونی ممالک کی دخل اندازی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
امریکہ ایک سپر پاور ہے، دنیا کے تقریباً تمام ممالک پر اس کی پالیسیاں اثر انداز ہوتی ہیں اس تناظر میں اس وقت اقوام عالم کی نگاہیں جوبائیڈن کی طرف اور ان کی آنے والی پالیسیوں کی طرف جمی ہوئی ہیں۔
بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ان تمام موضوعات پر کھل کر بات کی ہے جو اس وقت امریکہ کے اندر اور خارجی تعلقات کے اعتبار سے اہمیت کی حامل ہیں۔ بائیڈن کی حکمت عملیوں پر امید کے ساتھ ساتھ بے انتہا تشویش بھی پائی جاتی ہے۔ بائیڈن یوں تو اسرائیل کے لئے نرم گوشہ رکھنے کے لئے جانے جاتے ہیں۔ مگر صدر ٹرمپ کے اسرائیل کے ساتھ غیر معمولی دوستانہ روہ نے اس وقت یقینی طور پر بائیڈن حکومت سے محتاط ردعمل کا متوقع ہوگا۔ اس وقت کئی مسلم ممالک نے سفارتی تعلقات امریکہ کی ثالثی کی وجہ سے اسرائیلی حکومت کے ساتھ استوار کئے ہیں۔ خاص طور پر سعودی عرب اور امریکہ کے مابین اس مسئلہ پر کیا قدام کئے جائیں گے۔ سعودی عرب میں بائیڈن کے حوالے سے تحفظات محسوس کئے جارہے۔ اس وجہ سے انہوں نے بائیڈن کی فتح کو تسلیم کرنے اور مبارکباد دینے میں وقت لیا۔ ایران نے بردباری کا ثبوت دیا اور امید ظاہر کی ہے کہ تعلقات پھر اس نہج پر جائیں گے جو ڈیموکریٹک پارٹی کی پچھلی حکومت میں تھے۔ ایران کی نیوکلیئر ڈیل ابامہ کے زمانے میں تسلیم کی گئی۔
چین نے بائیڈن کی نئی حکومت کا خیرمقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ سپرپاور کی دوڑ میں ایک عمدہ سفارتی اور مہذب رویہ قائم کیا جائے گا۔ افغان مذاکرات پر کیا رویہ اختیار کیا جائے گا، کیا فوجی انخلاءہوگا یا کسی اور سبب کو بنیاد بنا کر فوج کو ایک دفعہ پھر بڑی تعداد میں وہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ شام، یمن اور کئی ممالک میں دخل اندازی ڈیموکریٹک حکومت میں ہی شروع ہوئی۔ بائیڈن کو اندرونی طور پر بھی گمبھیر صورت حال کا سامنا ہوگا۔ اب انتظار کرنا ہو گا کہ ساﺅتھ ایشیا کی طرف امریکہ کی نئی حکومت کا طرز عمل کیا ہوگا؟ جوبائیڈن پاکستان سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ماضی میں انہیں پاکستانی حکومت کی جانب سے ایک اعلیٰ اعزاز سے بھی نوازا گیا ہے۔ پاکستان خطے میں اپنی جغرافیائی حدود کی وجہ سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے اس کا اعتراف ہی اسے اپنے پڑوسیوں سے دوستانہ اور جارحانہ دونوں رویوں میں انگیج رکھتا ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ امریکہ پاکستان سے کس قسم کی ورکنگ ریلیشن شپ اختیار کرتا ہے۔ بائیڈن نے اپنی ٹیم تشکیل دینے کا کام شروع کردیا ہے، دیکھتے ہیں کہ ان کے ایڈوائزر نئی حکومت کو امریکہ کو اس کے تعلقات کو عالمی طور پر کس نہج پر لے جاتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں