تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 658

موت کے کھلونے

پرانے وقتوں کا ذکر ہے کہ ایک مشاعرہ کی محفل میں ایک مسلم الثبوت استاد نے ایک طرحی مصرع دیا۔
چمن سے آرہی ہے بوئے کباب
بڑے بڑے شاعروں نے طبع آزمائی کی، کوئی گرہ نہ لگا سکا، ان میں سے ہی ایک شاعر نے قصد کرلیا کہ جب تک کوئی گرہ نہیں لگا دیتے چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ وہ ہر صبح گھر سے نکل جاتے، اونچی آواز میں الاپتے
چمن سے آرہی ہے بوئے کباب
ایک روز اس ہی دیوانگی میں الاپتے گزر رہے تھے، ایک کمسن بچے نے جبا سنا تو فوراً بول اٹھا
کسی بلبل کا دل جلا ہوگا
وہ بچہ بعد میں مسلم الثبوت استاد بنے، یہ تھے جگر مراد آبادی۔ مگر امریکہ کی ریاست ٹینیسی کے شہر نیشول میں اپنے جگر کی گوشہ بیٹی کا مزاج قابو میں ہی نہیں آرہا تھا جہاں ہم سال بھر سے رہائش اختیار کئے ہوئے جہاں ہرہمیں تمام آسائیشیں میسر تھی۔ ڈالر کمانے کے لئے ایک بھاری بھر کم اسٹور کے مالک تھے۔ اقامت کے لئے ایک آرام دہ گھر تھا اور ایک مکمل فیملی جس کے ساتھ ہم خوش و خرم زندگی بسر کررہے تھے مگر ہماری سب سے چھوٹی اولاد اور اپنے بھائیوں کی واحد بہن بہت چڑچڑی ہو رہی اور جب بڑے بھائی اسکول چلے جاتے تو اس کی کیفیت میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا، جب بھی ہم اس کی پسند کے کھلونے خرید کر اس کو دیتے تو اس کی کیفیت میں بہتر ہو جاتی، تھوڑی دیر کھیلنے کے بعد پھر وہ اس کیفیت میں متبلا ہو جاتی حالانکہ ہم سب اس کو بھلانے کی کوشش کرتے مگر کوئی بہتری نہیں ہو رہی تھی ہم سب مل کر اس کو بہت وقت دے رہے تھے مگر اپنی مصروفیات کی وجہ سے وہ اتنا وقت نہیں دے پا رہے تھے جو وہ چاہتی۔ ہم زیادہ وقت اس کے ساتھ گزارنے کی کوشش کرتے، اس کو روزانہ باہر سیر کے لئے لے جاتے، گھماتے، پھراتے، پسند کے مقامات پر لے جاتے، کھانے پینے کی بہترین چیزیں کھیلنے کے لئے پسندیدہ کھلونے مگر وہ ننھی منی تین سال کی بچی کسی بھی طرح بہل کر نہیں دے رہی تھی۔ یوں ہمارا وقت بیٹی کے ساتھ اپنے معیار زندگی کو بہتر کرنے میں گزرنے لگا۔ یکایک ہماری والدہ کا پاکستان حکم نامہ آیا کہ ہمارے بچوں سمیت واپس لوٹ آﺅ۔ ہمیں بادل ناخواستہ اس فیصلہ کے آگے سر جھانا پڑا اور تمام آسائشیں چھوڑ کر واپس لوٹنا پڑا، پاکستان کے گھر واپس آکر ہم نے اپنی ایئرلائن کی نوکری شروع کردی اور ہماری بیگم نے اپنی ڈاکٹری گورنمنٹ کے کھاتے میں۔ ہم دونوں امریکہ سے واپس آکر زیادہ ہی مصروف ہو گئے مگر غم یہ ہی رہا کہ امریکہ کی اس قدر آسائشوں بھری زندگی چھوڑ کر پھر لوٹ کر بدھو گھر کو آئے۔ یوں ہمارا معمول اپنے آپ کو مطمئن کرنے میں اور ان ہی معمولات کو قائم کرنے میں گزرنے لگا۔ جب بچوں کی طرف دھیان دیا تو معلوم ہوا کہ ہمارے بچے پاکستان کی جیسی تیسی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ان کی عادت و اطوار میں غیر معمولی فرق آگیا ہے۔ ہماری بیٹی کے مزاج میں شوخی و شرارت اور خوشگواری نمایاں نظر آئی۔ اپنے ساتھ کے کزن بہن بھائیوں کے ساتھ وقت گزارتی، کبھی کھیلتی کبھی آپس میں لڑتے پھر ایک دوسرے سے مل کر کھیل کود میں مصروف ہو جاتے ان کو ہماری کوئی پروا نہیں تھی اس کا شمار بہترین بچوں میں کیا جانے لگا۔ ہم نے اس خوشگوار تبدیلی کی وجوہات میں جانے کی ضرورت تک نہیں محسوس کی۔ بچے بڑے ہو گئے ہمارے والدین نے جنت میں مقام بنا لیا۔
حالات ہمیں پھر کینیڈا لے آئے جہاں اب ہم میاں بیوی کے ساتھ ساتھ ہر بچے کے ہاتھ میں اسمارٹ فون کے علاوہ گھر میں پلے اسٹیشن کے علاوہ ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ اور دوسرے جدید تفریح کے ذرائع با افراط میسر تھے مگر وہ مسرت وہ شادمانی وہ سکون وہ اطمینان قلب نہیں تھا جو ہمارے وطن میں اس کے باوجود امن و امان، بیرونی خراب حالات، چوری، ڈکیتی، لوڈشیڈنگ، انسانوں کے بنائے ہوئے یا بگاڑے ہوئے حالات تھے پھر بھی وہ بہتر تھا ان پر آسائش زندگی سے۔
پچھلے دنوں امریکہ، کینیڈا او ریورپ کے مختلف جرائید میں بچوں کے حوالے سے کچھ رپورٹس پڑھنے کا اتفاق ہوا، معلوم ہوا کہ انہوں نے بچوں کے جسمانی اور ذہنی حوالے سے جو تحقیقاتی تجزیاتی رپورٹیں بنائیں ان میں ان خوفناک اندیشوں کا ذکر کیا جو بچوں کی جسمانی اور دماغی صحت کے لئے تباہ کن ہیں۔ ان رپورٹس میں اس طرح کے حالات کا ذمہ دار معاشرے سے زیادہ والدین کو قرار دیا۔ ہمارے وطن میں آسودہ حال گھرانوں کے والدین تو آپس میں اس طرح کی مقابلہ آرائی میں پڑ چکے ہیں کہ ان کے بچوں کے پاس جدید سے جدید آلات زندگی ہوں وہ جائز و ناجائز طریقوں سے کمائی ہوئی دولت سے اپنے بچوں کو ایک سے بڑھ کر ایک سہولتیں بہم پہنچانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ اپنی دولت سے اپنے بچوں کے لئے سہولتیں نہیں بلکہ موت حاصل کررہے ہیں۔ وہ زندگی سے دور ہو رہے ہیں۔ جدید تحقیقاتی رپورٹوں میں بیان کیا گیا ہے کہ بچے بیرونی دنیا سے جسمانی لاتعلقی اختیار کرکے ان آلات زندگی پر اپنی روش بنا رہے ہیں جس سے ان کی ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت پر خوفناک مضر اثرات قائم ہو رہے ہیں اور جس سے ان کی عمریں کم ہو رہی ہیں یوں بہت سے بچے آنے والے وقت میں اپنی موجودہ عمر طبعی تک پہنچ کر اپنے والدین کے سامنے ہی دنیا کو خیر باد کر دیں گے۔
ایک صحابیؓ نے میرے آقا حضور سے سوال کیا کہ حضور ایام جہالت کے ہمارے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔ حضور نے فرمایا ”ہاں“۔ صحابیؓ نے پھر سوال کیا کہ وہ گناہ بھی جو ہم نے اپنی اولاد کو زندہ قبروں میں دفن کردیا کرتے تھے؟ ہمارے نبی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمایا ”وہ بھی تمہاری جہالت میں شمار ہوں گے“۔ مگر آج کے زمانے کے جدید علوم سے مالا مال والدین اپنے بچوں کو جدید ذرائع زندگی کے لوازمات کی قبروں میں دھکیل رہے ہیں جن میں گھٹ گھٹ کر وہ موت سے قریب سے قریب تر ہو رہے ہیں ان جدید آلات زندگی سے وہ ان کے لئے علم کے دروازے نہیں، موت کے دروازے کھول رہے ہیں جب کہ وہ یہ دعویٰ بھی رکھتے ہیں کہ وہ اس جدید تعلیم یافتہ معاشرے کے سند یافتہ ہیں۔
یوں موجودہ آسائشوں کی وجہ سے یہ بچے نہ بڑی عمر تک پہنچ سکیں گے نا ہی ان کے دماغ اور ذہانت اس سطح تک پہنچ پائے گی جو پرانے وقتوں میں جگر مراد آبادی، بل گیٹس، آئن اسٹائین، نیل آرم اسٹرانگ، عبدالستار ایدھی، علامہ اقبال جیسے نابعہ روزگار بن سکیں گے۔ اس کے ذمہ دار وہ والدین ہوں گے جو ان بچوں کے لئے لیپ ٹاپ، اسمارٹ فون، ڈیک، آئی پاٹ یا آئی فون کے جدید سے جدید ماڈل خریدنے کے مقابلہ میں شریک ہیں، بجائے ان کو جدید جم کی سہولتیں یا باہر کی دنیا میں کھیلوں کے اسپورٹس کے سامان میسر کریں وہ ان کے لئے موت کے آثار پیدا کررہے ہیں۔ آج شاید مغربی معاشرہ تو اس خطرے کو محسوس کرکے اقدامات اٹھا رہا ہے مگر ہمارے ملک کی اشرافیہ ملک کے دوسرے بچوں سے غافل تو ہے ہی اپنے بچوں سے بھی غافل ہے۔
موت کی نذر ہوتے رہتے ہیں
زندگی کا خراج ہیں ہم لوگ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں