امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 498

مُلّائے حرم سے: تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام

اس سے قبل کے ہم پر ک±فر ، زندیقیت ، اور الہاد کا ایک اور فتویٰ لگ جائے، ہم تمہیداً عرض کردیں کہ ان معروضات کا عنوان ہم نے، مفَکّرِ پاکستان، اور اسلامیانِ ہندو پاک کے روحانی پیشوا شاعر ، علامہ اقبال کے کلام سے اخذ کیا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ علامہ نے بہت سے افکار فارسی زبان میں پیش کیئے تھے، جو ہمارا عام ملا تو سمجھ ہی نہیں پاتا اور جو علامہ ہیں، اگر ہیں ،تو وہ ان سے کنّی کاٹ جاتے ہیں۔ ان کا کچھ کلام ملاحظہ ہو:
”دینِحقازکافریرسواتراست۔۔زاںکہم±لاّمومنِ کافر گر است۔۔کم نگاہ و کو±ر ذوق و ہرزہ گرد۔۔مِلّت از قول و اقولش فرد فرد۔۔ک±ورِ ماد ر زاد، د±ورِ ا?فتاب۔۔دینِ کافر، فکر و تدبیر و جہاد۔۔دینِ م±لاّ، فی سبیل اللہ فساد“
ان مصروں کا آسان ترجمہ یوں ہے: ’آج کا دین، کفار کے دین سے زیاد ہ رسوا ہے۔ کیونکہ ہمار ا م±لاّ مومنوں کو کافر بنانے کے کام میں لگا ہوا ہے۔ وہ کم نگاہ، نا سمجھ، اور بیہودہ گو ہے۔ جس کی وجہہ سے آج ملٹ ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے۔مکتب، اسرارِ فکر ، اور قرآن سے اس ملا کا تعلق ایسا ہے ، جیسا کسی پیدائشی نا بینا سے سورج کی روشنی کا ہوتا ہے۔ آج کافر کا دین، فکر، اور مسلسل جدو جہد ہے۔ جبکہ ملا کا دین اللہ کی راہ میں فساد کر نا ہے۔‘
ایک اور جگہ علامہ یہ کہتے ہیں:
’عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو۔۔۔تر ی نگہ سے ہے پوشیدہ، آدمی کا مقام۔۔تری نماز میں باقی، جلا ل ہے نہ جمال۔۔تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام‘
یوں تو علامہ کا ک±ل کلام ان افکار سے پ±ر ہے، ہم آخر میں ایک اور حوالہ دے کر نفسِ مضون کی طرف آتے ہیں:

’ہِند میں حکمتِ دیں کوئی کہاں سے سیکھے۔۔۔نہ کہیں لذّتِ کردا ر، نہ افکار ِ عمیق۔۔حلقہ شوق میں وہ جرائتِ اندیشہ کہاں۔۔ آہ محکومی و تقلیدو زوالِ تحقیق
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں۔۔ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!
آج کی طاعونی وبا کے دور میں ہمیں علامہ کے یہ افکار پاکستا ن کے کچھ سر کردہ ملاﺅں کی، ردو قدح اور کٹھ حجتی پر بے اختیار یاد آئے۔وہ یوں کہ Covid-19 یا کورونا وائرس کی فی الوقت ناقابلِ علاج وبا سے تحفظ کا ایک ذریعہ مجموں اور اجتماعات سے گریز کرنا ہے، اور زیادہ سے زیادہ وقت نسبتاً تنہائی میں گھروں میں گزارنا ہے۔ ان میں ہر طرح کی عبادت گاہ میں جمع ہونا شامل ہے۔
پاکستان کی بعض صوبائی حکومتوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مسجدوں میں اجتماعات سے بچا جائے، سعودی حکومت نے خانہ کعبہ ، اور مسجدِ نبوی میں عبادت بہت محدود کردی۔ جامعہ ازہر نے ایک فتویٰ میں کہا کہ اس وقت مسلمان، مسجدوں میں نمازیں ادا کرنے کے بجائے گھروں میں نمازیں ادا کریں۔ دنیا کے کئی ممالک میں بھی مسجدیں بند کر دی گئیں۔
پاکستان میں بعض علما نے تو مسلمانوں کو یہی رائے دی۔ لیکن پاکستان کے اکثر یتی مسلک کے بعض اہم ملاﺅں نے یہ ماننے سے انکار کر دیا۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم اس موضوع پر کچھ نہیں بولے۔ بلکہ صدر کو ملاﺅں کے سامنے کر دیا، یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان میں صدر کے کوئی بھی انتظامی اختیارات نہیں ہے۔ ملاﺅں نے صدر کی کہاں سنناتھی۔ یہ ملا یہ بھی بھول گئے کہ پاکستان میں تبلیغی جماعت کی ایک کانفرنس کے کئی شرکا اس موزی بیماری کا شکار ہو گئے۔
سچ تو یہ ہے کہ پاکستان اس وبا کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ نہ اس کے پاس تدارک کے وسائل ہیں۔ عام پاکستانی حفظانِ صحت کے اصولوں سے بے بہرہ ہیں۔ اور بدقسمتی سے عام مسلمانوں کی مساجد صحت کے اصولوں سے دور تر ہیں۔یہ بیماری کسی میں فرق نہیں کر رہی۔ آج ہی کینیڈا میں ہمارا جانننے والا ایک توانا نوجوان اس بیماری کا شکار ہو کر چل بسا۔ پاکستان میں ہمارے ایک متمول عزیز کا سارا خاندان اس بیماری کا شکار ہو گیاَ۔
ایسے وقت میں پاکستانی وزیرِ اعظم بجائے تحفظ کے، عوام کو ایمان کا سہار ا لینے کے لیئے کہہ رہے ہیں۔ یہ جانے بغیر کے اللہ نے انسان کو صرف اس کی عقل کی بنیاد پر اشرف المخلوقات بنایا۔ اسلام کا ہر مفکر عقل کا استعمال سکھاتا ہے۔ اسی بنیاد پر مسلمان ایک دور میں ساری دنیا کے فکری اور سائنسی رہنما تھا۔ جب ہم نے فکر ، سائنس، اور علم ترک کرکے ‘صرف‘ ایمان کو اپنی ڈھال بنایا ، ہم پسماندہ تر ہو گئے۔
اس دور میں ہم سے آپ سے صرف یہ عرض کر سکتے ہیں، کہ ابھی اس بیماری کو پوری طرح سمجھنے اور اس کا علاج ڈھونڈنے میں وقت لگے گا۔ تب تک آپ کو احتیاط کی ضرورت ہے۔ ملاﺅں اور عمران خان کی لن ترانیوں پر دھیان مت دیں۔ حفظانِ صحت کی جو بھی ہدایت ڈاکٹر اور ساینسداں دے رہے ہیں ان کی بات مانیں ، اور جو بھی سرکار آپ کو عقلمندانہ مشورہ دے اس پر عمل کریں۔ اگر آپ مومن ہیں اور عبادت گزار ہیں تو تنہائی میں عبادت کریں۔ اگر آپ اللہ کو مانتے ہیں تو وہ نیتّوں کو جانتا ہے۔ اور خد کہتا ہے کہ ہم آپ پر آپ کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔
سو آج کل صرف سائنس پر غور کریں اور اپنی روحانیت اپنے نفس تک محدود کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں