بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 232

مکافات عمل

لگتا کچھ یوں ہے کہ پاکستان کے مظلوم عوام کی دعائیں رنگ لا رہی ہیں کہ آج اقتدار بالا میں بیٹھے لوگوں پر مختلف عتاب آرہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ممبران ہوں یا عدالتوں میں بیٹھے جج صاحبان، فوجی وردی میں ملبوس اعلیٰ افسران ہوں یا سرکاری سطح پر کام کرنے والے تمام کے تمام لوگ مختلف قسم کے اسکینڈلز کی زد میں ہیں۔ ویڈیو کا سوشل میڈیا پر اچانک نمودار ہونا اس بات کو ظاہر کررہا ہے کہ پروردگار کی پکڑ آرہی ہے اور یہ لوگ جو کہ مطلق العنان حکمران کا روپ دھار چکے ہیں، آج باہمی چپقلش کے نتیجہ میں پاکستانی عوام کے سامنے ننگے ہو رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مکافات عمل کا شکار ہو رہے ہیں اس لئے کہ اللہ کی چکی بہت باریک پیستی ہے۔ انسان کو ایک حد تک تو اللہ رب العزت کی ذات درگزر کرتی ہے مگر جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچ جائے تو پھر قدرت کی رحمت جوش میں آتی ہے اور کسی نہ کسی مظلوم کی دعا عرش ہلا دے تو پھر انسان مشکلات میں گھر جاتا ہے پھر نہ تو تعلقات کام آتے ہیں، نہ دولت، سب کا سب دھرا رہ جاتا ہے اور انسان کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ ویسے تو ہمارے ایوان اقدار اور عدالتوں میں بیٹھے لوگوں کو کو عزتوں کے لٹنے کا ڈر ہوتا تو وہ اپنا احتساب خود کرتے مگر ہمارے ملک میں خود احتسابی کے عمل کی روش نہیں بلکہ یہاں تو کبھی اگر غلطی سے کسی جج کو انصاف کرنے کا خیال آ بھی جائے تو اس پر عمل درآمد ناممکن ہوتا ہے۔ کہیں اسلام کا نام لے کر معافی طلب کرلی جاتی ہے، کہیں گواہان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور کہیں وکیل اور جج خرید لئے جاتے ہیں یوں ملک ظالموں کی پناہ گاہ بن چکا ہے اور مظلوم عوام حسرت سے عمران خان حکومت کو دیکھ رہے ہیں کہ اب وہی ایک آسرا تھا جس سے کچھ بہتری کی امید تھی۔ کہتے ہیں مایوسی کفر ہے چنانچہ ہمیں آج بھی اس بات کا یقین کامل ہونا چاہئے کہ اللہ کا انصاف جس روز آگیا اس دن غریب عوام کے ساتھ نا انصافی کرنے والوں کو کوئی کونہ نہیں ملے گا۔ جہاں وہ چھپ سکیں اور پھر عوام کا جوتا ہو گا اور ان حکمرانوں کا سر پھر خواہ حکومت وردی والوں کی ہو، کالے کوٹ والوں کی یا پھر کلف زدہ شلوار قمیض پہنے بیورو کریسی کی، سب زیر عتاب آئیں گے۔ وہ دن ہو گا کہ جس روز فیض احمد فیض کا کہنا سچ ثابت ہوگا کہ
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں