انسانیت پر ظلم دُنیا کے کسی بھی کونے پر ہو، ظالم اور مظلوم کا تعلق چاہے کسی بھی ملک یا مذہب سے ہو، یہ عمل قابل مذمت ہے۔ انگریز نے آدھی دُنیا پر حکومت کی، طاقت کے بل بوتے پر کئی ممالک پر قبضہ کیا، وہاں کے وسائل سے فائدہ اُٹھایا، ہیرے جواہرات، سونا چاندی اور دوسرے معدنیات سے فائدہ اٹھایا لیکن دنیا میں کچھ مقام ایسے بھی تھے جہاں انہیں سخت مزاحمت، شکست اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت بھاری جانی و مالی نقصان ٹھانا پڑا۔ جہاں کے باشندوں نے کبھی ان کے غیر قانونی تسلط کو قبول نہ کیا اور ہمیشہ ان سے مقابلہ کیا لیکن ہمیں اور ہمارے ملک کے لوگوں کو صرف افغانستان اور پاکستان کے فرنٹیئر سرحدی علاقوں کے بارے میں بتایا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان علاقے کے لوگوں نے انگریز کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ اور انگریز یہاں کے بہادر جانباز لوگوں کو کبھی سکست دے کر غلام نہ بنا سکا لیکن شاید مذہبی فرق کی بناءپر ہمیں ان جیسے ہی بہادر جفا کش اور انگریزوں کے ساتھ کبھی تعاون نہ کرنے والے اور ان کی غلامی سے انکار کرکے ایک طویل عرصے تک جنگ کرنے والے غیر مسلموں کے بارے میں کچھ نہ بتایا گیا۔ ان غیر مسلموں کا علاقہ ناگالینڈ ہے جس کی تاریخ حالات بہادری جفاکشی ہمارے پختونخواہ کے سرحدی قبائل سے بہت ملتی جلتی ہے۔ انگریزوں کے ہندوستان میں آنے سے قبل یہ علاقہ آزاد علاقے کی حیثیت رکھتا تھا اس علاقے کے بارے میں شاید بہت کم لوگ واقف ہوں۔
ناگالینڈ انڈیا کی ایک چھوٹی سی ریاست ہے جو زیادہ تر پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے، یہ انڈیا کے شمال مشرق میں واقع ہے اس کی سرحد برما اور آسام سے ملتی ہے، اس کا کل رقبہ ساڑھے چھ ہزار مربع میل ہے اور آبادی تقریباً 20 لاکھ ہے اس کا دارالخَافہ کوہیما اور سب سے بڑا شہر دیماپور ہے۔ ناگا لینڈ 16 قبائل پر مشتمل ہے، تمام قبیلے مختلف زبانیں اور مختلف ثقافت رکھتے ہیں، اکثریت عیسائیوں کی ہے، دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکن اور یوروپین مشنری نے یہاں عیسائی تبلیغ کا کام کیا اور یہاں کی اکثریت کو عیسائی بنا دیا گیا اس سے پہلے یہ لوگ عجیب و غریب مذاہب سے منسلک تھے۔ یہاں تعلیم کا معیار بہت بلند ہے، سرکاری زبان انگلش ہے، اسکول، کالجز اور یونیورسٹی اچھی تعلیم فراہم کررہے ہیں، یہاں کی زراعت میں چاول، مکئی، پھلیاں، آلو اور گنا وغیرہ قابل ذکر ہیں جو کہ برآمد بھی ہوتے ہیں اس کے علاوہ گھریلو صنعت بھی موجود ہے انہوں نے کبھی انگریز تسلط کو قبول نہ کیا اور ہمیشہ انگریزوں سے جنگ جاری رکھی۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کی ہماری برصغیر کی تاریخ میں کوئی جگہ نہیں ملی حالانکہ ناگالینڈ کی صورت حال بالکل کشمیر جیسی ہے لیکن یہاں کی خبریں، انڈین، پاکستانی اور عالمی میڈیا سے محروم ہیں۔ یہاں کے باشندوں نے بھی مختلف ادوار میں بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ کیا جن میں برما کے لوگ پیش پیش تھے۔ برما نے اس علاقے پر کوئی حملے کئے، لوٹ مار بھی کی لیکن اس علاقہ پر قبضہ نہ جما سکے اور برما کا اس علاقہ پر قبضہ کرنے کا خواب کبھی پورا نہ ہوسکا۔ انگریزوں کے ہندوستان میں آنے کے بعد ان کو دو مقامات پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، ایک پختونخواہ کا سرحدی علاقہ اور دوسرا ناگا لینڈ جہاں انگریز کو بہت نقصانات اٹھانا پڑے۔ ناگالینڈ کے کچھ حصے پر انگریز قابض ہو چکا تھا لیکن آس پاس کے قبائل نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور ان کے ساتھ گوریلا جنگ جاری رکھی۔ انگریز نے یہ کوشش بھی کی یا چال چلی کہ ناگا لینڈ کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت دی جائے، ان کا اپنا قانون ہو لیکن وہاں کی حکومت انگریز کے کنٹرول میں ہو لیکن یہ چال بھی ناکام ہوگئی۔ اور ان قبائل نے کبھی انگریز کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔ ہندوستان سے انگریزوں کے جانے کے بعد نہرو نے کافی کوشش کی کہ ناگالینڈ کو انڈیا کی ریاست کا درجہ دیا جائے لیکن ناگالینڈ کے قبائل نے نہ تو کبھی انگریز کی حکومت کو قبول کیا اور نہ انگریز کے جانے کے بعد انڈیا کی حکومت سے کوئی سمجھوتہ کیا۔ نہرو نے آرمی کے ذریعے طاقت کا سہارا لیا لیکن شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بالاخر 1963ءمیں ناگالینڈ کے کچھ قبائل جنہوں نے انگریز سے بھی تعاون جاری رکھا تھا انڈیا کی سرپرستی میں تو آگئے لیکن اس کے آئین کو قبول نہ کیا اور انڈیا کی سرپرستی میں آزاد ریاست میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ لہذا انہوں نے اپنے قوانین کو برقرار رکھا اور انڈیا کے اندر ان کی حیثیت آزاد علاقے جیسی رہی لیکن بہت سے قبائل ان اقدامات سے خوش اور مطمئن نہیں تھے ان کو انڈین آرمی یا سرکاری حکام اپنی سرزمین پر بالکل برداشت نہیں تھے لہذا انہوں نے اپنی بندوقوں کو نیچا نہیں کیا اور جنگ جاری رکھی اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔
اندرا گاندھی کے دور میں بھی ناگا لینڈ کو قباو میں کرنے کے مختلف طریقے استعمال کئے جاتے رہے ان کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے وعدے کئے جاتے رہے وہاں اسکول، کالج، یونیورسٹی بنائی گئی، تعلیم کا معیار بلند کیا گیا، صنعتوں کو فروغ دینے کے لئے مدد کی گئی۔ اندرا گاندھی ایک ذہین، چالاک اور معاملہ فہم سیاست دان تھیں، بھٹو بھی اس کے سامنے کچھ نہیں تھا، اس نے بھٹو جیسے شخص کو انگلیوں پر نچا کر شملہ معاہدے پر دستخط کرالئے۔ اس معاہدے سے سراسر انڈیا کو فائدہ پہنچ رہا تھا اور کشمیر کا مسئلہ ایک لمبے عرصے کے لئے لٹک گیا۔ کشمیر کا سودا تو اسی وقت ہو گیا تھا، شملہ معاہدے میں اندرا نے بڑی چالاکی سے اپنے مفاد کا معاہدہ تیار کیا اسے معلوم تھا کہ بھٹو جلد سے جلد اس معاملے کو نپٹا کر مغربی پاکستان میں اپنی حکومت کو مضبوط کرنا چاہے گا لیکن کافی بحث و مباحثے کے بعد بھٹو نے اپنے مفاد اور اپنی حکومت بچانے کے لئے اس معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کے تحت کشمیر کا مستقبل تاریک ہونے جارہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس معاہدے کے تحت وہ کشمیر کا سودا کررہا ہے۔ لیکن دوسری صورت میں اگر وہ ناکام واپس جاتا تو شاید اس کی حکومت خطرے میں پڑجاتی۔ لہذا اس نے تمام شرائط کو مان لیا۔ اور اندرا نے نہایت چالاکی سے اس معاہدے پر بھی دستخط کرالئے جس کے تحت کشمیر کے مسئلے کو اندرونی معاملہ قرار دیا گیا اور دونوں ملکوں یعنی انڈیا اور پاکستان کو پابند کیا کہ وہ یہ مسئلہ آپس میں خود ہی طے کریں گے اور اقوام متحدہ سمیت کسی تیسرے فریق کو درمیان میں نہیں لائیں گے، نہ کسی کی مداخلت قبول کریں گے۔ اس کے بعد جب بھی اقوام متحدہ میں کشمیر کے مسئلے پر قرارداد پیش کی گئی، اقوام متحدہ نے اسے شملہ معاہدے کی رو سے انڈیا اور پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا اور دونوں ملکوں کو ہمیشہ پابند کیا کہ وہ دونوں یہ مسئلہ خود ہی نپٹائیں اور یہ مسئلہ کبھی حل نہ ہو سکا۔
ابھی حال ہی میں جب انڈیا نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے تو اقوام متحدہ میں کچھ تبدیلی آنے لگی ہے، اسی ذہانت اور چالاکی کو کام میں لاتے ہوئے اندرا نے ناگالینڈ میں تعلیمی اور ترقیاتی منصوبوں پر عمل کیا اس کے بعد وہاں کے قبائلی لیڈروں کو اس طرح شیشے میں اتارا کہ وہ ہتھیار پھینک کر انڈیا کی سرپرستی میں آگئے اور انڈیا کے آئین کو بھی قبول کرلیا۔ اس کے باوجود کچھ قبائل باغی رہے لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی، یہ اندرا کی بہت بڑی فتح تھی، اندرا کے قتل کے بعد ناگالینڈ سے پھر بے اعتنائی برتی جانے لگی اور ان کی حق تلفی شروع ہو گئی۔ نتیجے میں آہستہ آہستہ قبائلی پھر باغی ہونے لگے۔ یہ قبائل 1947ءسے ہر سال آزادی کا جشن مناتے ہیں، اپنے جھنڈے لہراتے ہیں اور پریڈ ہوتی ہے، اس سال تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ وہ قبائل جنہوں نے انڈیا کی سرپرستی کو قبول کیا تھا وہ بھی باغی قبائل کے ساتھ مل کر آزاد ہونے کی بات کررہے ہیں۔ انڈیا کو وارننگ مل چکی ہے کہ اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے ورنہ ناگا لینڈ آزاد ہو کر خودمختاری کا اعلان کردے گا۔ انڈیا نے اس مسئلے پر ابھی تک خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ انڈیا کے کچھ چینلز نے اس کے بارے میں مختصر سی رپورٹ دی ہے اس مرتبہ مودی کے غلط اقدام کی وجہ سے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں پہنچا ہے کیونکہ مودی نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جو شملہ معاہدے میں موجود ہے لیکن اقوام متحدہ میں پاکستان یا کشمیر کی طرف سے پاکستان جو بھی قرارداد پیش کرتا ہے، شملہ معاہدہ انڈیا کی ڈھال بن جاتا ہے لیکن اس مرتبہ کشمیر کا مسئلہ ذرا دوسرے رُخ پر دیکھا جارہا ہے۔ مودی کی کئی حماقتیں انڈیا کے لئے سودمند نہیں ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انڈیا کا دشمن مودی خود ہی ہے ایسے اقدامات کررہا ہے جو انڈیا کو تباہی کی طرف لے جائیں گے۔ اب ناگا لینڈ کے باسی بھی اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور آسام کی ریاست میں رہنے والے بھی پرتول رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ انڈیا کے بہت جلد ٹکڑے ہونے والے ہیں۔ آسام، ناگا لینڈ اور خالصتان تو سامنے ہی ہیں اس کے بعد دیکھئے کون سر اٹھاتا ہے۔
556