Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 711

وحشت اور تہذیب

جب انسان نے تہذیب کی طرف قدم بڑھائے تو جیسے جیسے وہ اپنے قدم آگے بڑھا رہا تھا اپنے پیچھے اسے اپنا وحشی پن نظر آرہا تھا۔ اور وہ حیران اور شرمندہ ہوتا تھا لیکن یہ شرمندگی صرف ان کے حصے میں تھی جو واقعی تہذیب یافتہ ہونے کے خواہش مند تھے۔ ان کے لئے نہیں جن کا وحشی پن تو قائم تھا لیکن دنیا کے ساتھ چلنے کے لئے وقتی طور پر وحشی پن پر پردہ ڈال لیا تھا۔ چونکہ اجتماعی طور پر تہذیب کے مراحل سے گزر رہا تھا لہذا ہر آدمی یہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ زیادہ تہذیب یافتہ ہے ایک وقت ایسا آیا جب انسان نے کہا کہ اب ہم تہذیب یافتہ دور میں رہ رہے ہیں اور یہ دور وہی ہے جس میں ہم سب آج رہ رہے ہیں لیکن کیا ایسا ممکن ہے کہ انسان نے کچھ ہزار سال پہلے کا وہ وحشی دور بھلا دیا ہے۔ کیا وہ تمام برائیاں تمام وحشی پن ختم ہو چکا ہے جو اُس دور میں تھا۔ میرا خیال ہے کہ نہیں، ایسا نہیں ہو سکا، دراصل انسان کی جبلت میں وحشی پن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے جو کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتا۔ تہذیب یافتہ ہونے کی کوشش تو کی تھی لیکن بدقسمتی سے اپنے اندر کے وحشی پن کو جڑ سے نہیں اکھاڑ سکے بلکہ اس پر مصلحت کا پردہ ڈال دیا گیا۔ پہلے وحشی پن سرعام کھلم کھلا ہوتا تھا اب اس کے لئے انسان نے طرح طرح کے حربے استعمال کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ مختلف ترکیبیں نکال لیں جن سے وہ اپنے وحشی پن کی تسکین کرسکے اور پھر بھی تہذیب یافتہ ہونے کا دعویٰ کرتا رہا۔ وحشیانہ دور میں اگر کوئی شخص کسی سے ناراض ہوتا تھا تو فوری طور پر یا تو اسے قتل کر دیتا تھا یا پٹائی لگا دیتا تھا۔ تہذیب سے یہ فرق آگیا ہے کہ آج اگر کوئی شخص کسی سے ناراض ہوتا ہے تو فوری طور پر کچھ نہیں کرتا لیکن یہ صرف ایک عام آدمی کی مثال ہے کیونکہ تہذیب کے ٹھیکے داروں نے جو قوانین مرتب کئے ہیں۔ عدالتیں اور جیلیں بنائی ہیں وہ اپنی عام آدمیوں کے لئے ہیں جنہیں تہذیب اصول و قوانین کا سبق دیا جاتا ہے ورنہ بڑے لوگ اسے پرانے زمانے کے وحشی پن سے ہی فیصلہ کرتے ہیں اور عدالت اور ملک کے قوانین بھی ان کے سامنے بے بس ہوتے ہیں۔ وحشی پن کی رمق اس عام آدمی میں بھی ہے لیکن وہ قانون سے ڈرتے ہوئے فوری طور پر قدم نہیں اٹھا سکتا۔ لہذا وہ اپنے مخالف کو نقصان پہنچانے کے لئے طرح طرح کی ترکبیں سوچتا ہے اور موقع ملتے ہی کام دکھا دیتا ہے۔ تمام دنیا اسی اصول پر چل رہی ہے چاہے وہ عام آدمی ہو یا بڑی بڑی حکومتیں، اگر اپنے آپ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو چالیں چلنا پڑتی ہیں اور مصلحت سے کام لینا پڑتا ہے اور اگر خود کو نقصان پہنچنے کا ڈر نہ ہو تو کھلم کھلا وحشیانہ پن کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور یہی ہے انسان کا وحشی پن جو جاری ہے اور جاری رہے گا اور اگر کسی نے واقعی تہذیب یافتہ زندگی کی خواہش کی ہے اور اپنے وحشی پن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے تو ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس کے باوجود مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہر آنے والے دور کو گزرے ہوئے دور میں کچھ خرابیاں نظر آتی ہیں اور ان پر پردہ پڑتا رہتا ہے یہی حال حکومتوں کا ہے، ہر آنے والا دور گزرے ہوئے دور سے مختلف ہوتا ہے، صرف چالیں بدل جاتی ہیں، کچھ ہزار سال پہلے کے دور میں سفر کے لئے اتنے ذرائع موجود نہیں تھے۔ آج کا چند گھنٹوں کا سفر اس دور میں ہفتوں اور مہینوں میں ہوتا تھا۔ زمین کا ایک بڑا حصہ انسان کے قدم سے نا آشنا تھا۔ جہاں جہاں انسان موجود تھا اور جس حد تک جا سکتا تھا۔ زمین پر قبضہ کرتا چلا گیا۔ حدیں باندھیں اور ملک کا نام دیا گیا۔ جیسے جیسے سفر کے وسائل بڑھتے گئے، مختلف سمتوں کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آنا شروع ہو گئے، ایک دوسرے سے کچھ سیکھنے کو ملا، تہذیب اور تعلقات کا دور شروع ہوا، ایک دوسرے کے ملک سے سرحدیں ملنے لگیں، لیکن انسان کی جبلت وحشی پن اس کی لالچی نظریں، برابر والے کمزور ملک پر پڑنے لگیں اور موقع پا کر اور حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔
دور وحشت میں جو سب سے طاقتور ہوتا تھا، سردار بننا اسی کا حق ہوتا تھا۔ طاقت کے بل پر بادشاہت وجود میں آئی۔ یہ اصول، یہ طریقہ، وحشی پن کی روایات آج بھی قائم ہیں۔ آج تہذیبی طریقے سے جمہوریت کے پردے میں الیکشن کے ذریعے حکمت بنتی ہے۔ اصول وہی پرانا ہے۔ الیکشن میں حصہ وہی لیتا ہے جو طاقت ور ہے یا جس کے پیچھے کوئی طاقت ہے۔ جو ووٹ خرید سکتا ہے جس کے پاس افرادی جرائم پیشہ قوت بھی ہوتی ہے۔ مخالف کو خاموشی سے ٹھکانے بھی لگایا جاتا ہے۔ غرض سب کچھ وہی ہو رہا ہے جو کہ ایک وحشی دور میں ہوتا تھا، صرف طریقہءکار مختلف ہے۔ آج بڑے بڑے تہذیب یافتہ ممالک سیاسی چال بازیوں اور شطرنج کا کھیل کھیل رہے ہیں اور یہ کھیل کئی سو سال سے جاری ہے۔ کمزور ملکوں میں اپنے پنجے گاڑنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں اور یہ سب تہذیب کے پردے میں ہو رہا ہے۔ پہلے اچانک کسی ملک پر حملہ کرکے قتل و غارت گری کرکے قبضہ کر لیا جاتا تھا لیکن اب کمزور ملکوں پر قبضہ کرنے کے لئے طاقت ور قوتوں میں رسہ کشی ہے جو بالواسطہ ایک دوسرے سے جنگ کرتا ہے۔ لہذا پرانے طریقہ کو غیر تہذیب یافتہ قرار دے کر عالمی ادارہ بنا دیا گیا۔ جہاں فیصلے بھی ان بڑی طاقتوں کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ لہذا تہذیب یافتہ دور اور طریقہ میں جس ملک پر قبضہ کرنا ہو پہلے وہاں اندرونی انتشار پیدا کیا جائے پھر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر اپنی فوجیں بھیجی جائیں، بعد میں اس ملک میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کردی جائے۔ یہ سازشیں یہ ملک میں بے چینی کی فضائ، ریشہ دوانیاں یہ چھوٹی حکومتوں پر قبضے اپنی شکست کا بدلہ لینا ان سب کے پیچھے کون ہے، ذرا غور کریں، دنیا کے ان تمام حصوں میں کیا ہوا ہے اور کیا ہو رہا ہے۔ فائدہ کس کو حاصل ہو رہا ہے۔ جن ممالک میں واقعی تہذیب ابھی زندہ ہے، وہاں ان لوگوں کو ناکامی ہوتی ہے کیوں کہ ان کو وحشی لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ایسے کارنامے کریں کہ عقل دنگ رہ جائے۔ وحشی پن کی تمام حدود کو پار کردیں اور ماشاءاللہ ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو ہر وقت بکنے کو تیار ہو جائیں۔ چاہے وہ کتنے ہی تعلیم یافتہ ہوں، وکیل ہوں، جج ہوں یا صحافی ہوں، سب کی قیمتیں مقرر ہیں۔ ہر ظالمانہ فعل انجام دینے والے لوگ موجود ہیں۔ پشاور اسکول کا واقعہ اور ابھی تازہ ساہیوال کا واقعہ اس کی بہت بڑی مثال ہیں۔ اپنے فائدے کے لئے پیسے اور کرسی کے لئے کوئی بھی شخص کچھ بھی کرسکتا ہے اور سب کچھ ہوتا نظر آرہا ہے۔ انسان کا وحشی پن عروج پر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں