پاکستان اور 8 فروری 2024ءانتخابات 104

وہ سحر انگیز لہجہ

ابھی دنیائے ادب و ثقافت امجد اسلام امجد کے صدمے سے سنبھلنے بھی نہ پائی تھی کہ لب و لہجہ کے بے تاج بادشاہ ضیاءمحی الدین کے رخصت ہونے کی خبر آگئی۔ تہذیب و ادب کا ایک ایسا مینار جس کے سائے میں کئی پودے پروان چڑھے، اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔ ضیاءمحی الدین نے اردو اور انگریزی ادب کو اپنی ادائیگی سے ایک نئی جہت عطا کی۔ لب و لہجے اور تلفظ کی باریکیوں سے سننے والوں کو ادب کے پیچیدہ رموز سے آگاہ کرکے ذوق و شوق کی دنیا کے در وا کرنے میں ضیاءصاحب کو ایک کمال حاصل تھا۔ حالیہ منعقدہ کراچی میں اردو کانفرنس میں جس محویت اور خاموشی سے ان کو سنا گیا، خاص طور پر نئی نسل کی جانب سے ان کی پڑھت کو جس انہماک سے اور توجہ سے سراہا گیا وہ بے مثال تھی۔ ضیاءمحی الدین کے پرستار دنیا میں جہاں جہاں بھی ادب و ثقافت کے چاہنے والے موجود ہیں وہاں کثیر تعداد میں ہیں۔ ضیاءمحی الدین کو سننے اور ملاقات کی خواہش بے شمار لوگوں کو رہی۔ وہ جہاں جہاں بھی گئے بے شمار خوشگوار یادیں چھوڑ آئے۔ ان کی شخصیت میں ایک عجیب سی شفقت کا عنصر تھا جو ہر ملنے والے کو ان کا گرویدہ کر دیتا تھا۔ ضیاءمحی الدین ایک چلتے پھرتے کتب خانہ تھے۔ ان سے گفتگو میں گویا ایک جہان کھل جاتا تھا۔
92 سال کی عمر میں داغ مفارقت دینے والے ضیاءمحی الدین کی پیدائش 20 جون 1931ءمیں پنجاب کے شہر فیصل آباد میں ہوئی۔ پنجاب میں عمومی طور پر اردو کے تلفظ اور ادائیگی کے سلسلے میں دشواریاں پائی جاتی ہیں مگر جس خوبصورتی سے الفاظ اور جملوں کی ادائیگی کا بھرم ضیاءصاحب نے رکھا وہ انہیں بلندیوں پر لے گیا۔
ضیاءمحی الدین نے 50 کی دہائی میں لندن رائل اکیڈمی آف ڈرامہ سے اداکاری کی سند لینے کے بعد تھیٹر میں شمولیت اختیار کی اور کئی اسٹیج ڈراموں میں اپنی بہترین اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان میں ایک مشہور ڈرامے A Passage to India میں انہوں نے ڈاکٹر عزیز کا کردار اس خوبصورت سے نبھایا کہ عالمگیر شہرت کے حامل ٹھہرے۔ ضیاءمحی الدین نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز 1962ءمیں ہالی ووڈ کی مشہور ترین کلاسک فلم رانس آف عربیہ سے کیا جس میں انہوں نے ایک بدو کا کردار کیا۔ اور اس کے بعد کئی انگریزی فلموں میں اداکاری کی۔ انہوں نے اس کے بعد پاکستان واپس آکر یہاں کی فلمی دنیا میں قدم رکھا اور کئی پاکستانی فلموں میں اداکاری کی۔ 70 کی دہائی میں انہیں پی آئی اے کی آرٹس اکیڈمی کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا اسی عرصہ میں انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن پر ضیاءمحی الدین شو کے نام سے ایک ٹاک شو کا آغاز کیا۔ یہ ایک منفرد انداز کا پروگرام تھا جس میں اردو اور انگریزی ادب کو ایک نئے انداز سے لوگوں کو متعارف کروایا گیا۔ یہ پروگرام اپنی مقبولیت کے اعتبار سے کامیاب ترین قرار پایا۔ اس پروگرام نے ضیاءمحی الدین کو ایک انتہائی شستہ اور ادب کو پرکھنے اور پڑھنے والی شخصیت کے طور پر متعارف کروایا۔ ان کی اردو پڑھت یہیں سے مقبول ہونا شروع ہوئی اور اس کے بعد یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہی چلا گیا۔ کلاسیکی ادب میں شاعری اور نثر دونوں ہی شامل ہیں۔ ضیاءصاحب نے اس پر عبور حاصل کرتے ہوئے رانے اور نئے شعراءکے کلام کو پیش کیا اور یہ ہی نثر کے ساتھ ہوا۔ بے شمار نئی اور پرانی تصانیف ضیاءصاحب کے توسط سے منظرعام پر آئیں۔ اردو ادب کو زندہ رکھنے میں جو کردار ضیاءصاحب نے ادا کیا ہے وہ فقید المثال ہے۔ شاعری اور نثر پڑھتے وقت جو سماں بندھ جاتا تھا وہ سامع کو اس داستان کا ایک حصہ ہونے کا احساس دلا دیتا تھا۔ سننے والوں کو وہ جس سحر میں لے جاتے تھے وہ صرف ان ہی کا خاصہ تھا۔ بقول مشتاق احمد یوسفی کو اگر ضیاءکسی مردہ سے مردہ ادیب کی تحریر پڑھ لے تو وہ زندہ ہو جاتا ہے“۔ ضیاءصاحب نے کالم نگاری بھی کی اور کچھ شہ پارے کتابوں کی صورت میں بھی تحریر کئے-
2004ءمیں جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومت پاکستان کے تعاون سے کراچی نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کا ادارہ ضیاءمحی الدین کی سربراہی میں قائم کیا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلا ادارہ تھا جہاں گزشتہ 18 سالوں تھیٹر اور موسیقی کے مختلف اسلوب اور انداز پر کام کیا جاتا ہے۔ اداکاری کے ساتھ ساتھ ہدایت کاری، اسکرپٹ کی تیاری اور اس شعبے سے تعلق رکھنے والی دیگر جزیات پر کام کیا جاتا ہے۔ طالب علموں کی ایک کثیر تعداد اس ادارے سے وابستہ ہے اور یہاں باقاعدہ طور پر ڈگری تفویض کی جاتی ہے۔ اس سے قبل فنون سے وابستہ کسی ایسے ادارے کا تصور ہی نہیں تھا۔ ضیاءصاحب بذات خود اس کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے اس کے انتظامات اور کارکردگی کے ذمہ دار رہے۔ آخری دنوں تک بھی وہ باقاعدگی سے دفتر جاتے رہے اور اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے کہ ان کا کوئی سیشن ناغہ نہ ہونے پائے۔ انہوں نے ناپا کے طالب علموں کے ہمراہ کئی ڈرامے اسٹیج کئے۔ اس ادارے کی شہرت بیرون ملک بھی پہنچی اور کئی بیرونی فنکار مختلف مواقع پر اس میں شامل ہوئے۔
ضیاءمحی الدین کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے 2003ءمیں انہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا۔
ضیاءمحی الدین کے چلے جانے سے پاکستان کی ادبی اور ثقافتی دنیا میں یاک ایسا خلا پیدا ہوا ہے جو کسی طور بھی پُر نہ ہو سکے گا۔ اردو اور انگریزی ادب سے جس طرح انہوں نے عوام الناس کو مانوس کیا وہ ایک عظیم کام کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ضیاءمحی الدین کی متاثر کن شخصیت ہمیشہ ذہنوں میں آباد رہے گی۔
ان کے لئے دعاﺅں اور خراج تحسین کے اجتماعات میں کثیر تعداد میں لوگ شرکت کررہے ہیں۔ ہر ایک ان کے اخلاق اور نرم مزاجی اور شستہ گفتگو کا تذکرہ کرتا نظر آتا ہے۔
ناپا نے اپنے سربراہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے کئی مختلف نوعیت کے اجتماعات کا اعلان کیا ہے۔
ضیاءمحی الدین اپنی ذات میں خود ایک ادارہ اور انجمن تھے جس کے نقوش سالوں تک پاکستان کی دنیائے فن میں نظر آتے رہیں گے۔ ادبی اجتماعات میں ان کی کمی کا بے حد احساس ہو گا اور وہ سحر باندھ دینے والا انداز بیان یاد آتا رہے گا۔ خدا ان کے درجات بلند فرمائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں