Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 660

پابندی

خالق کائنات کی تمام تخلیقات جس میں سورج ،چاند ،ستارے ،سیّارے زمین اور اس پر تمام جاندار یہ سارا نظام قدرت ایک پابندی کے تحت کام کررہا ہے۔پوری کائنات میں توازن برقرار رکھنے کے لئے کچھ پابندیاں عائید کی گئیں۔ایک مخصوص وقت کے مطابق زمین چاند اور دوسرے سیّاروں کا اپنے مدار پر گھومنا اسی طرح ایک صاف ستھرے، مکمّل، خوبصورت اور پرامن انسانی معاشرے کی تکمیل میں کچھ پابندیاں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ورنہ اس معاشرے میں قتل و غارت گری لوٹ مار ،لاقانونیت جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا سلسلہ قائم رہتا ہے اور معاشرے کے امن پسند لوگوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے اس طرح کے تجربات سے ہم لوگ کئی مرتبہ گزرے ہیں۔چنانچہ امن پسند معاشرے میں سانس لینے کے لئے اس معاشرے کے تمام انسانوں کو کچھ پابندیوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔یہ جملہ کہنا آسان ہے کہ میں کسی کا پابند نہیں ہوں۔لیکن عملی زندگی میں ایسا ممکن نہیں ہے کہ انسان کسی بھی چیز یا شخص یا قدرت کے نظام کا پابند نہ ہو۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے نظام ہی ایسا بنایا ہے انسان کو زندہ رہنے کے لئے پابندی سے کھانا کھانے اور پانی پینے کی ضرورت ہے اگر نہیں کرے گا تو زندہ رہنا مشکل ہے اسی طرح رشتوں کی پابند ی ،قانون کی پابندی ،عورت اور مرد پر علیحدہ علیحدہ کیا کیا پابندیاں عائید کی گئیں ہیں قرآن شریف میں موجود ہے اگر پڑھا جائے تو معلوم ہو کہ کیا پابندیاں ہیں۔لیکن ہمارے ملک کی کچھ خواتین کو کسی قسم کی پابندی پسند نہیں ہے وہ کسی کی بھی پابند نہیں رہنا چاہتیں وہ بالکل آزاد ہونا چاہتی ہیں۔یہاں تک کہ نکاح کی بھی پابندی نہیں چاہتیں۔مغرب کی خواتین میں بھی قسمیں پائی جاتی ہیں وہاں بھی تمام خواتین مکمّل آزادی کی خواہاں نہیں ہیں وہاں گھریلو خواتین بھی پائی جاتی ہیں اور ایک خواتین کا طبقہ ایسا بھی ہے جن کی آزادی کی مانگ کچھ اس قسم کی ہے کہ ہالینڈ میں خواتین کی ایک آرگنائزیشن کا مطالبہ ہے کہ اگر مرد بغیر قمیض پہنے گھوم سکتے ہیں تو خواتین کو سینہ چھپانے کی کیوں پابندی ہے بہرحال دنیا میں تو نہ جانے کیا کیا ہورہا ہے ہم اپنے ملک کی بات کرتے ہیں۔شرمیں عبید چنائے اور ملالہ جو پاکستانی خواتین کی مظلومیت کی داستانیں لئے دنیا میں گھوم رہی ہیں ان داستانوں کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔شرمین عبید اور ملالہ سے جب بھی یہ سوال کیا گیا کہ خواتین پر تشدّد،تیزاب پھینکنے اور تعلیم پر پابندی کے واقعات کہاں ہوئے تو انہوں نے وزیرستان فاٹا کے ان قبائلی علاقوں کا نام لیا جن میں سے کئی علاقے پچھلے سال ہی پختونخواہ میں شامل ہوئے ہیں۔افغانستان اور بلوچستان سے ملحقہ علاقے جہاں کئی قبائل ایک زمانے سے آباد ہیں اور جو ہمیشہ سے ہی آزاد رہے ہیں برطانیہ کے راج کو بھی انہوں نے کبھی قبول نہیں کیا اور پاکستان بننے کے بعد پاکستان کو بھی قبول نہیں کیا تھا۔وزیرستان کا قبائلی لیڈر حاجی مر زالی خان اپنے لشکر کے ساتھ انگریزوں سے جہاد کے نام پر گو ریلا جنگ کرتا رہا وہ پشتونوں کے لئےایک علیحدہ ریاست چاہتا تھا۔ 1938ءمیں وہ وزیرستان کے اپنے گاو¿ں کو چھوڑ کر وزیرستان کے ہی دوسرے گاو¿ں گوروہک منتقل ہوگیا یہ گاو¿ں ڈیورنڈ لائن پر افغانستان کی سرحد کے قریب ہی ہے یہاں سے وہ انگریزوں کے خلاف بہتر طریقے سے جنگ کرسکتا تھا۔گروہک میں آکر اس نے اس علاقے کو آزاد پشتون ریاست کا نام دیا اور انگریزوں سے زور آز مائی کرتا رہا۔پاکستان بننے سے دو مہینے پہلے جب انگریزوں کے جانے کا وقت تھا میرزالی خان نے تمام پشتون قبائل اور خدائی خدمتگار کے ساتھ مل کر جو کہ خان عبدالغفّار خان کی سربراہی میں انگریزوں کے خلاف اور پشتونستان کے قیام کی تحریک تھی انگریزوں سے یہ مطالبہ کیا کہ ان کو پاکستان سے علیحدہ اپنی ریاست پشتونستان چاہئیے۔جسے انگریزوں نے رد کردیا۔پاکستان کے قیام کے بعد میرزائی خان اور اس کے ساتھیوں نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور ایک مرتبہ پھر پشتونستان کے قیام کا اعلان کردیا جس کا صدر میرزالی خان تھا اور اس نے اپنی وفات تک پاکستان کو قبول نہیں کیا۔ 1960ءمیں وہاں کے قبائل نے اس شرط پر پاکستان کو تسلیم کیا کہ وہاں پر ان کا اپنا جرگہ قانون چلے گا اور اپنے تمام معاملات میں وہ خود فیصلہ کرنے کے حق دار ہوں گے گویا کے وہ علاقے آزاد ہی رہے۔ یہی شرائط کچھ قبائل نے قائد اعظم کے ساتھ بھی طے کیں تھیں یہ وہ علاقے تھے جہاں تعلیم کا فقدان تھا ان لوگوں کا ذریعہ آمدنی افیون کی کاشت اور ہتھیار اور اور اوزار بنانا تھا ان کا معیار زندگی ہمیشہ قدیم ہی رہا اور وہ اسی میں خوش رہے۔ان حالات میں اگر وہاں خواتین پر ظلم ہوا انہیں تعلیم سے محروم رکھّا گیا اور ان پر حسمانی تشدّد کیا گیا تو ملالہ اور عبید چامئے سے یہ سوال ہے کی کیا اس کے ذمّہ دار پاکستانی عوام اور پاکستانی حکومت ہے؟ یہ تو اس علاقے کے رہنے والوں کی اپنی خواہش تھی اور اپنے طریقے سے رہنے کے لئے پاکستان بننے کے بعد بھی گوریلا جنگ کرتے رہے۔حقوق انسانی کی پاکستانی نام نہاد تنظیمیں ،شرمین عبید اور ملالہ نے ان ہی علاقوں کی مثالیں دے کر اپنا الّو سیدھا کیا پیسہ بھی خوب کمایا اور پاکستان کو اس حوالے سے پوری دنیا میں رسوا کیا کہ پاکستان میں خواتین کی عزّت نہیں ہے ان پر ظلم کیا جاتا ہے اور ان کو تعلیم سے محروم رکھّا جاتا ہے۔پاکستان دوسرے اسلامی ممالک اور کئی ایشیائی ممالک سے خواتین کے معاملے میں قدرے مختلف ہے پاکستان میں خواتین کو جتنی آزادی حاصل ہے اور جتنی پرسکون زندگی ہے شائید کئی ممالک کی خواتین کو میسّر نہیں ہے پاکستانی خواتین زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ان میں ڈاکٹر،انجینئر، پائلٹ، آرمی ،ائیر فورس ،پولیس ،صوبائی اور قومی اسمبلی کی ممبران، اسپیکر، اور سب سے بڑھ کر وہ خواتین جو گھرداری کرتی ہیں بچّوں کی پرورش کرتی ہیں شائید اس سے بڑھ کر محنت طلب کام کوئی نہیں ہے۔اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی خاتون وزیر اعظم جب کہ امریکہ جیسے ترقّی یافتہ ملک میں ایک خاتون ہلری کلنٹن کی سربراہی کو ماننے سے انکار کردیا گیا اور وہاں کے دانشوروں کا کہنا تھا کہ امریکن ابھی کسی خاتون صدر کے لئے تیّار نہیں ہیں۔ اب اگر جواباً ان خواتین کی مثال دی جائے جو چھوٹے چھوٹے گاو¿ں میں رہتی ہیں تو امریکہ سمیت دنیا کے کسی ملک میں چلے جائیں وہاں کے چھوٹے چھوٹے گاو¿ں میں کھیتی باڑی ذریعہ معاش ہے تعلیم کی کمی ہے اور گھروں میں مار پیٹ کے واقعات عام ہیں۔ہماری خواتین نے پاکستان بننے سے پہلے انگریز راج میں سیاست میں اور تحریک آزادی میں حصّہ لیا جب کہ کئی مغربی ممالک میں خواتین کو ووٹ دینے کاحق بھی نہیں تھا۔کیا یہی خواتین پر پابندی کہلائی جاتی ہے آج پاکستان کی چند خواتین کسی سازش کا آلہ کار بن کر بینر لے کر کھڑی ہیں ان کو مرد کی برابری چاہئے آزادی چاہئیے آزاد تو پہلے سے ہیں اور کون سی آزادی چاہئے۔اور یہ بینر اٹھانے والی زیادہ تر وہ خواتین تھیں جو آزادی کے چکّر میں پہلے ہی اپنے گھر برباد کرچکی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں