نئی نسل کے لئے بے حسی کا پیغام 215

پاکستانی قوم، بے حس قوم

ہم اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے رہنے والے ہیں جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا جس کے پرچم کا ہرا رنگ زراعت، سفید رنگ کی پٹی اقلیتی کمیونٹی کی ترجمانی کرتی ہے اور چاند ستارہ پاکستان کے اسلامی ملک ہونے کی دلیل ہے۔ واضح رہے کہ قیام پاکستان کے بعد اینگلو انڈین، کرسچن، ہندو، پارسی اور دیگر مذاہب کے لوگ کھلم کھلا ملک میں ملازمتیں کرتے اور گھومتے پھرتے دکھائی دیتے تھے۔ اسکول، کالج، یونیورسٹیز میں غیر ملکی طلباءطالبات کی بڑی تعداد موجود تھی یوں پاکستان کا آئین تمام مذاہب کے لوگوں کے تحفظ کی ضمانت دیتا تھا۔ مگر پھر آہستہ آہستہ پاکستان، اسلامی جمہوریہ پاکستان بنا۔ ایک ایسے جمہور کی آواز جس کا ملک میں کہیں وجود ہی نہیں۔ جہاں ہر جانب ملک کی ترجمانی خاکی وردی کی مرہون منت ہو کر رہ گئی، سونے پہ سہاگہ یہ کہ لاتعداد مذہبی جنونی گروپ تشکیل دے دیئے گئے جنہیں بعدازاں سیاسی جماعت کا درجہ دے کر ملکی ایوانوں تک پہنچا دیا گیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ پورا ملک یرغمال بنا ہوا ہے اور یہ مذہبی جنونی دین اسلام کے ٹھیکیدار بنے، جب چاہیں جہاں چاہیں اور جسے چاہیں کافر قرار دے کر کبھی اینٹوں کی بھٹی میں پھینک دیں تو کبھی تیل چھڑک کر آگ لگا دیں۔
سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر تو خوب شور مچاتے ہیں کہ کس طرح مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور مسلمانوں کو زندہ جلایا جارہا ہے۔ جب کہ ہم نبی پاک کے ماننے والے جنہوں نے کبھی اپنے مخالفیں سے اونچی آواز میں بات نہیں کی جو محبتوں کا پیکر تھے اور جنہوں نے اسوہءحسنہ سے دین اسلام دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیا۔ جنہوں نے نبی پر پتھروں کی بارش کی۔ آپ نے انہیں بھی دعائیں دیں اور اللہ تعالیٰ سے اُن کے لئے رحمت اور ہدایت مانگی۔ آپ پر ظلم کی اس درجہ انتہا ہوئی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جبرئیل امین کے ذریعہ پیغام دیا کہ میرے محبوب نبی سے پوچھو کہ کیا ہم دونوں پہاڑوں کو آپس میں ملا کر آپ کے مخالفین کو کچل نہ دیں تو آپ نے منع فرما دیا اور کہا کہ ”ہو سکتا ہے کہ ان کی نسلوں سے کوئی اللہ اور اس کے دین کو ماننے والا پیدا ہو جائے“۔ یہ تھے ہمارے نبی جن کے حسن اخلاق اور امانت کی دشمن بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکا۔ عیسائیوں کے وفود نبی کریم سے ملنے آتے تو آپ انہیں مسجد نبوی میں ٹھہراتے۔ نہ کبھی اُن کے ٹھہرنے سے مسجد ناپاک ہوئی اور نہ ہی مسلمانوں کا اعتراض سامنے آیا۔ آج تو صورتحال یہ ہے کافر تو درکنار مسلمان تو مسلمان کے ہاتھوں خون میں نہا رہا ہے۔ مساجد کو کاروبار اور منافقت کا اڈا بنا دیا گیا ہے۔ دین اسلام کو دکھاوے اور دنیا حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جس دین ایک فرقہ کے مسلمانوں کو دوسرے فرقہ کے مسلمانوں سے خوف ہو، وہاں کافروں کی کیا حیثیت ہے۔ وہ تو کسی کھاتے میں ہی نہیں آتے۔
سری لنکا سے تعلق رکھنے والے فیکٹری مینجر کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر تو بہت افسوس ہے مگر اس سے زیادہ صدمہ ان لوگوں کے رویہ پر ہے جو اس پورے حادثہ کو فلماتے رہے۔ سیلفیاں لی جاتی رہیں، کسی نے اس بات کا احساس تک نہ کیا کہ جلنے والا کسی کا بھائی، شوہر اور باپ تھا۔ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، ان کا کفیل کون ہوگا۔ ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے کب اور کہاں اس بات کی اجازت دی ہے کہ ہم کسی کی جان لے لیں۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ شیطان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور وہ ہمیں بہکا کر جہنم واصل کرنا چاہتا ہے۔ ہم جہالت میں ڈوبے ہوئے مسلمان، نادانی میں وہ کچھ کررہے ہیں جس کا حکم نہیں اور یہ وہ عمل ہے جو ہمیں ایمان سے بھی محروم کرسکتا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں عدالتیں اور حکومت صرف اور صرف بیانات دینے کے لئے رہ گئی ہیں۔ حکومتی رٹ ختم ہو چکی ہے اور یہ مذہب اسلام کے جنونی اپنے سوا سب کو کافر خیال کرتے ہیں۔ شاید یہ نہیں جانتے کہ اپنی عبادتوں پر تکبر بھی انہیں جہنم واصل کرسکتا ہے۔ صد افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے وزیر دفاع پرویز خٹک فرماتے ہیں کہ چند نوجوانوں نے جوش میں ایک غلطی کردی تو کیا ہوا۔ نوجوان خون گرم ہوتا ہے اور ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ یہ وہ ذہنیت ہے جس نے آج ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کو جنونی بنا دیا ہے۔ رہی سہی کسر ہمارے یہاں کے پیروں نے پوری کردی ہے جن کی خانقاہوں میں صبح و شام شرک ہو رہا ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایسے ملک کا کیا مستقبل ہو سکتا ہے اور ایسے مسلمان کیسے اور کیونکر فلاح پا سکیں گے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں