بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 402

پاکستان میں لاک ڈاﺅن

پاکستان معاشی لحاظ سے ایک نہایت کمزور ملک ہے۔ جہاں غربت اپنے انتہا کو چھو رہی ہے۔ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ روز کماتا اور روز کھاتا ہے۔ موجودہ وبا کے نتیجہ میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں میں بھی کھنچاﺅ کی صورتحال ہے خصوصاً سندھ اور وفاق میں ایک سردجنگ کی کیفیت ہے۔ ملک کے دیگر صوبوں پنجاب، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کے وزراءاعلیٰ تو وفاق کے ساتھ مکمل تعاون کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور وزیر اعظم نے ان صوبوں کا مختصر دورہ بھی کیا ہے مگر سندھ واحد صوبہ ہے جہاں سب سے پہلے لاک ڈاﺅن کیا گیا اور دنیا بھر میں سندھ حکومت کے اس اقدام کو سراہا بھی گیا مگر بغیر پلاننگ کے لاک ڈاﺅن کر دینا یقیناً کئی ایک سوالات کو جنم دیتا ہے کہ سندھ کا شہر کراچی پورے ملک کا نظام چلاتا ہے اور اس کی بندش کی صورت میں کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
کراچی بھی نیویارک کا درجہ رکھتا ہے اور وہاں پہلے بغیر کسی پلاننگ کے لاک ڈاﺅن کیا جانا اور پھر اس کے اثرات کو دیکھ کر کراچی سے لاک ڈاﺅن کھولنا یقیناً کراچی کے عوام کو موت کے منہ میں دھکیلنے کی سازش معلوم ہوتی ہے۔ دوسری جانب ہمارے ملک کی عوام دو طبقات میں تقسیم ہیں۔ ایک جو سائنس کے پیچھے چلتی ہے اور دوسری وہ جو ملاﺅں کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑی ہے۔ ان کے خیال میں مساجد ہر لحاظ سے محفوظ ہیں اور وائرس کا مسجد میں داخلہ ناممکن ہے۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں امریکہ کے بھی کئی شہروں میں امریکی شہری آج بھی چرچ میں جانے سے گریز نہیں کررہے اور ان کا ایمان ہے کہ یہ ایک روحانی عمل ہے اور اس کے نتیجہ میں نقصان نہیں ہوسکتا، یوں مختلف مکتب فکر اور مذاہب کے لوگ کرونا وائرس کو اپنے نظریات کی روشنی میں دیکھ رہے ہیں اور یہاں آکر دنیا بھر کے سائنسدان بھی بغلیں جھانکتے نظر آتے ہیں۔ یہاں دنیا بھر کے میڈیا کا کردار بھی نہ جانے کیوں مشکوک سا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ ہسپتالوں کو ہدایت ہے کہ مرنے والے تمام افراد کے موت کی وجہ Covid-19 لکھی جائے یعنی جو لوگ کسی دوسرے مرض یا طبعی موت بھی مریں ان کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں موت کی وجہ کے کالم میں کرونا لکھا جائے۔ میں یہ تو نہیں جانتا کہ اس بات میں کس قدر صداقت ہے مگر امریکہ میں بھی اور دیگر ممالک میں بھی ایسی خبریں گردش کررہی ہیں۔ یہاں میں کراچی کے مشہور ہسپتال جناح پوسٹ گریجویٹ کی ترجمان ڈاکٹر سیمی جمالی کے ایک بیان کا حوالہ دوں گا جس میں وہ کہتی ہیں کہ ہسپتال میں گزشتہ 15 روز میں 220 افراد کا انتقال ہوا جس میں ایک بھی کرونا کی وجہ سے فوت نہیں ہوا۔ جب کہ پاکستانی میڈیا جناح ہسپتال میں مرنے والے 300 افراد کی وجہ فوتگی کرونا وائرس بتا رہا ہے۔ نہ جانے کیوں ملک میں انارکی پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔
اب آتے ہیں کراچی کی صورتحال کی جانب جہاں سے خبریں آرہی ہیں کہ علماءحضرات مساجد کو بند کرنے پر تیار نہیں اور صوبائی حکومت نے لاک ڈاﺅن کا دورانیہ 2 ہفتہ کے لئے مزید بڑھا دیا ہے۔ وفاقی حکومت نے بھی دورانیہ میں توسیع کردی ہے مگر اطلاعات یہ بھی ہیں کہ سندھ حکومت پر دباﺅ ہے کہ کراچی کا لاک ڈاﺅن کھول دیا جائے کیونکہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے مگر کراچی میں رہنے والوں کی زندگیوں کی ضمانت کون دے گا؟ کراچی میں بسنے والے مزدور طبقہ کی دادرسی کون کرے گا؟ سچائی تو یہ ہے کہ اگر کراچی میں خیراتی ادارے کام نہ کررہ ےہوتے تو کراچی کے لوگ کرونا سے نہیں تو بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر گئے ہوتے۔ کراچی کے لئے فیصلے کرنے والوں کو بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ خواہ وہ لاک ڈاﺅن میں توسیع کریں یا شہر کھول دیں مگر یاد رکھیں۔ کراچی دوسرا نیویارک نہ بن جائے اگر ایسا ہوا تو نہ کراچی کا مقامی بچ سکے گا اور نہ ہی غیر مقامی، یہ وباءپھیلی تو پورے پاکستان کو لے ڈوبے گی۔ اس لئے حکام بالا سے التجا ہے کہ کوئی بھی پالیسی بنانے سے پہلے ہزار بار سمجھ لیں کہ کراچی کا نقصان پاکستان کی گرتی ہوئی معاشی صورتحال کو بستر مرگ پر لاسکتا ہے۔ ہمارے اردگرد گھاس میں ہزاروں سانپ چھپے ہوئے ہیں۔ دشمن ہماری سرحدوں پر ہی نہیں ہمارے ملک کی جڑوں میں بھی بیٹھا ہے اور وہ زیادہ خطرناک ہے کیونکہ وہ ہمارا اپنا ہے۔ ہمیں کئی محاذوں پر جنگ کا سامنا ہے اور نہایت ذمہ دارانہ فیصلہ وقت کا تقاضا ہے۔ یہاں اگر سندھ حکومت سیاسی اسکورنگ کرتی ہے تو وہ بھی اللہ کے غضب سے نہیں بچ سکتی۔
آج دنیا اپنی نا انصافیوں کے سبب قہر الٰہی کی لپیٹ میں ہے اور ذات باری تعالیٰ نے مظلوموں کی جانب توجہ کردی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی مظلوم کے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھ جائیں اور پوری بساط لپیٹ دی جائے۔ ہمیں کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ ہم مسلمان ہیں تو بچ جائیں گے۔ نہیں، بچے گا وہی جو خلق خدا سے محبت کرے گا اور انسانیت کا علمبردار ہو گا۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں
جنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا
جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں