بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 84

پاکستان کا آئینی بحران

پاکستان میں آئینی بحران شدت اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے جو کچھ حکومت اور عدلیہ کے درمیان ہو رہا ہے یہ نتیجہ ہے ہمارے غلط فیصلوں کا جو ماضی میں حکومتو نے کئے۔ آج ججز پر الزامات لگ رہے ہیں کہ وہ کسی ایک پارٹی کو سپورٹ کررہے ہیں مگر ہمیں تنقید کرنے سے قبل اپنے ماضی کے اقدامات کا جائزہ لینا چاہئے۔ مسلم لیگ ن کو اس حقیقت کا سامنا کرنا ہو گا کہ ان کے سامنے وہی کچھ آرہا ہے جو انہوں نے ماضی میں کیا تھا۔ جو بیج مسلم لیگ ن نے ماضی میں بویا تھا وہ آج درخت بن چکا ہے۔ غلط یا صحیح کا فیصلہ کون کرے گا؟ آج اگر یہی جج حکومت کے حق میں فیصلہ دے دیتے تو یہ جمہوریت کی فتح ہوتی مگر یہ بھی عجیب گورکھ دھندا ہے کہ فیصلہ حق میں آئے تو ٹھیک، مخالف آئے تو ججز کو پارٹی بنا دیا جائے اور اگر یہ حقیقت بھی ہو کہ ججز مخالفین سے ملے ہوئے ہیں تو پھر یہ روایت ڈالنے والی بھی تو نواز لیگ ہے۔ ماضی میں آصف زرداری کے کیس میں کیا وجہ بنی تھی کہ آصف علی زرداری نے اپنا کیس سندھ ہائی کورٹ کو بھجوانے کی ہدایت کی تھی۔ کیا کوئی اس بات کی وضاحت کر سکتا ہے کہ کیوں یہ عدم اعتماد پیدا ہوا۔ مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ 73 سالوں میں ہر حکومت نے عدلیہ کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا۔ اگر کوئی جج آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے کھڑا ہوا تو یہی مسلم لیگ ن تھی جس نے سپریم کورٹ کے آہنی دروازوں کو پھلانگا اور جسٹس سجاد علی شاہ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔ وجہ صرف یہی تھی کہ سجاد علی شاہ کا تعلق صوبہ سندھ سے تھا اور وہ پریشر برداشت نہ کرسکے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب کبھی فوج کو گالی صوبہ بلوچستان یا سندھ سے دی گئی، فوری آپریشن ہوا اور کراچی میں تو اردو بولنے والے نوجوانوں کے غائب ہونے اور ماورائے عدالت قتل ہونے کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور کوئی پرسان حال نہیں مگر شاید پنجاب میں خون بہانے کی ہمت نہ پولیس میں ہے اور نہ فوج میں، اور کیونکر ہو، پورے پنجاب کے ہر گھر سے کوئی نہ کوئی فوج میں ضرور ہے اور یہی وجہ ہے کہ لاہور میں کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ فوج کو گالیاں دینے والوں پر گولیاں چلاتی۔ یہی صورت حال عمران خان کے معاملے میں بھی ہے کہ سب کا تعلق پنجاب سے ہے، آج کی اپوزیشن اور حکومت پنجاب سے ہیں، عدلیہ میں بیٹھے جج صاحبان پنجاب سے ہیں۔ فوج کے تمام جنرلز کا تعلق پنجاب سے ہے اور بیوروکریسی میں بیٹھے افسران بھی 95 فیصد پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ آج کی جنگ ٹکر کی جنگ ہے۔ سب پنجابی ایک دوسرے سے دست و گریبان ضرور ہیں مگر قتل و غارت گری سے بچے ہوئے ہیں کیونکہ آج پنجاب جاگ گیا ہے، آج پاکستان کے عوام بھوکے ہیں، پریشان ہیں تو بڑی تعداد عوام کی پنجاب میں ہی ہے۔ بڑا صوبہ ہونے کے سبب وہاں کے عوام کی بات بھی اہمیت رکھتی ہے۔ کراچی جو کہ پاکستان کا معاشی حب ہے، کچھ کہنے کی جسارت نہیں کرسکتا اور اگر کہتا بھی ہے تو کوئی شنوائی نہیں۔ کراچی کا انڈسٹریلسٹ یا بزنس مین ملک کو معاشی طور پر سہارا دینے کے باوجود بندوق کی نوک پر یرغمال بنا ہوا، اپنی زندگی کے بقیہ دن پورے کررہا ہے۔ نہ ان کی فیملیز محفوظ ہیں یا ان کے بزنس۔ جب جو چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے، سلوک روا رکھتا ہے۔ مگر آج کھلے عام پنجاب میں عوام فوج کو دیکھ کر نعرے لگا رہے ہیں کہ ”فوجی جنرل کرنل دہشت گرد“، مگر فوجی گاڑیاں خاموشی سے یہ نعرے سنتی ہوئی گزر جاتی ہیں۔ اتنی ہمت بھی نہیں کہ نیچے اتر کر چند نوجوانوں کو ڈنڈا ڈولی کرکے گاڑیوں میں ڈال دیں۔ یہی کچھ کراچی میں ہوتا تو لاشیں گنی نہ جاسکتیں۔
کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ کفار کی حکومت قائم رہ سکتی ہے، نا انصافی کی نہیں تو پاکستان میں نا انصافی تو قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہو رہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں داخلوں میں نا انصافی۔ ملازمتوں میں نا انصافی، انصاف فراہم کرنے میں نا انصافی، غرض ہر سطح پر رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر فیصلہ ہو رہے ہیں اور کوئی عدالت اور کوئی حکومت اس جانب توجہ نہیں دے رہی اور آنکھیں بند کئے اپنے مفادات کی جنگ میں پورے پاکستان کی عوام کو جھونک دیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ بڑوں کی لڑائی آخر ملک کو کہاں تک لے جائے گی اور عوام کو اور کتنا صبر کرنا ہوگا۔
کاش کے عوام باہمی جھگڑوں اور تعصب سے باہر نکل کر ایک ہو جائیں اور ان حکمرانوں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈال دیں۔ سسٹم سے کھیلنے والوں کے گھروں میں گھس کر ان کے خاندانوں کو سمندر برد کردیں تو شاید ملک کے مسائل حل ہو سکیں وگرنہ تو حکمران عوام کا خون چوس چوس کر ڈریکولا بن چکے ہیں اور کسی بھی صورت میں عوام کی جان چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ یاد رہے کہ عوام کو جاگنا ہوگا۔ باہر نکلنا ہو گا، حکمرانوں کے جنازے نکالنے ہوں گے، وگرنہ اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے جنازے اٹھانے کے لئے تیار رہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں