بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 341

پاکستان کا 74 واں جشن آزادی

اتحاد، تنظیم، یقین محکم پاکستان کا بنیادی مقصد تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک کاوش سے مملکت خداداد پاکستان معرض وجود میں آیا مگر قائد اعظم محمد علی جناح کو ان کی صحت نے اجازت نہ دی کہ وہ ملک کو صحیح سمت میں ڈال سکتے۔ بانی پاکستان کو بے پناہ عزت اور ستائش عوام کی جانب سے ضرور ملی مگر عوام کی جہالت کہ وہ اپنے قائد کی حفاظت نہ کرسکے، نہ ہی سازشی عناصر کی چالوں کو سمجھ سکے۔ مفاد پرست ٹولہ قائد اعظم کے انتقال کے فوری بعد اقتدار پر قابض ہوگیا۔ قائد اعظم کے بعد وزیر اعظم اور قائد اعظم کے دست راست لیاقت علی خان کو بھی سازش کے ذریعہ راستے سے ہٹا دیا گیا۔ پاکستان بنانے والے نہ جانے کہاں کھو گئے اور پاکستان کی مخالفت کرنے والوں کو خاموشی سے حکومت کے ایوانوں میں براجمان کردیا گیا اور یوں وہ پاکستان جو دنیا کے نقشہ پر تیزی سے اپنی حیثیت منوا رہا تھا پستی کی جانب دھکیل دیا گیا۔
ابتداءمیں بنگالیوں کو دھمکیوں اور گالیوں کے ذریعہ اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوشش کی گئی مگر وہ سمجھدار قوم تھی اور انہوں نے پاکستان سے علیحدہ ہونے میں ہی عافیت جانی اور دنیا میں اپنا ایک علیحدہ مقام بنالیا۔ مغربی پاکستان مشرقی پاکستان جدا ہو گئے مگر ہم سبق حاصل نہ کرسکے اور اپنے ہی ملک کے عوام کے ذہنوں میں زبان اور مذہب کی بنیادوں پر زہر کھولنا شروع کردیا۔ ہم یہ بھول گئے کہ ہم جس ڈالی پر بیٹھے ہیں اُسی کو کاٹ رہے ہیں۔ وہ پاکستان جو لاکھوں لوگوں کی قربانی سے معرض وجود میں آیا، میں قربانیاں دینے والوں کو بھی قربان کردیا گیا۔ تقسیم کے بعد پاکستان میں آباد ہونے والے مسلمانوں کو تنگ نظری کے اس قدر نشتر چبھوئے گئے کہ لوگ قومی پارٹیوں کو چھوڑ کر زبان اور نسل کی بنیاد پر سامنے آنے والوں کے پیچھے چل پڑے۔ کہیں مسلمان مہاجر ہوگئے، کہیں جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگا، کہیں پنجابی پختون اتحاد بنا تو کہیں جی ایم سید کی تحریک کو فروغ ملا۔ ایک گھر کے رہنے والے، ایک پرچم تلے آزادی حاصل کرنے والے، ایک اللہ اور رسول کو ماننے والے باہمی مفادات کی بھٹی میں ایسے جل بھن گئے کہ نفرتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ملک میں طویل عرصہ تک یا تو آمریت قائم رہی یا پھر آمریت زدہ جمہوریت۔ ذوالفقار علی بھٹو ہوں، میاں نواز شریف یا پھر موجودہ دور کے حکمران سب آمریت کی چھتری تلے پرورش پاتے رہے۔ جس نے آمریت کے خواب سے باہر نکلنے کی کوشش کی اور نظریاتی ہونے کا نعرہ لگایا وہ یا تو اوپر چلے گئے یا پھر ملک بدر کردیئے گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ نہ حکمران نیک نیت تھے اور نہ ہی عوام میں ایمانداری اور ایمان کی روشنی ہے۔ ملک کو آزاد ہوئے 74 سال بیت گئے۔ قوم سال 2021ءکا یوم آزادی منا رہی ہے مگر یاد رہے کہ اس 74 ویں یوم آزادی کے موقع پر تجدید عہد وفا ضروری ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لیں۔ وزیر اعظم عمران خان ملک کے معاشی استحکام اور خوشحالی کے لئے سخت فیصلے کریں، ایسی پالیساں وضع کریں جن کے ذریعہ مہنگائی پر کنٹرول کیا جاسکے۔ اگرچہ کہ گزشتہ ڈھائی سال میں چیزیں ٹھیک نہ ہو سکیں مگر عوام حکومت سے اُمید لگانے کے بجائے خود کو بھی احتسابی عمل سے گزاریں۔ اپنی پہچان سندھی، پنجابی، پٹھان، مہاجر، بلوچی کے بجائے بطور پاکستانی بنائیں۔ دنیا بھر میں خود کو قومیتوں کے ذریعہ مضبوط کرنے کے بجائے پاکستانی بن کر سوچیں۔ ملک میں اقربا پروری اور کوٹہ سسٹم کے ذریعہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے استحصال کے بجائے اللہ کی ذات پر بھروسہ کریں۔ حق دار کو اس کا حق دیں تو یقیناً اللہ کی رحمت سایہ فگن ہو گی اور پاکستان مسائل سے نکل کر دنیا کے نقشہ پر ایک مضبوط ملک کے طور پر سامنے آئے گا۔ اور اس کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ملک میں ہوگا اور اگر ہم نے اب بھی اپنی نفرتوں کو ختم نہ کیا اور آپس میں دست و گریباں رہے، نا انصافیوں کا خاتمہ نہ کیا تو پھر وہ وقت دور نہیں کہ جب پاکستان کے مزید حصہ بخرے ہو جائیں، میرے منہ میں خاک۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم ہمیشہ یونہی جشن آزادی کی خوشیاں مناتے رہیں اور پاکستان کے ترانے گاتے رہیں، آمین۔
ہوں لاکھ ظلم مگر بدّ دُعا نہیں دیں گے
زمین ماں ہے زمیں کو دغا نہیں دیں گے
ہمیں تو صرف جگانا ہے سونے والوں کو
جو در کھلا ہے وہاں ہم صدا نہیں دیں گے
روایتوں کی صفیں توڑ کر بڑھو ورنہ
جو تم سے آگے ہیں وہ راستہ نہیں دیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں