تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 513

پلکوں سے چُنے کانٹے

سرد جنگ اپنے عروج پر تھی، اس کے فریق اپنی اپنی قوت کو مزید بڑھانے کے لئے ہر ممکن کارروائیوں کو بروئے کار لارہے تھے۔ امریکہ اپنے مہلک ہتھیاروں کی دوڑ میں بہت آگے نکلنے کی تگ و دو میں مسلسل لگا ہوا تھا۔ دوسری طرف سوویت روس بھی کسی طرح اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہنا چاہتا تھا۔ اس وقت تک روس کے ساتھ ملحق بہت سی ریاستیں سوویت یونین کے نام سے قائم تھیں۔ اس کی قیادت خروشیف کے پاس تھی جو امریکہ کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھ کر بات کرتا تھا۔ جس کا اظہار اس نے ایک موقع پر جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے دوران اپنے پیر سے جوتا اُتار کر روسٹرم پر مارتے ہوئے اپنے مخالف سیٹو سینٹو اور نیٹو کے مغربی ممالک کو دھمکیاں دیتے ہوئے کیا۔ ایک موقع پر پاکستان کے ہوائی اڈے سے جاسوسی کرنے والے امریکی طیاروں نے جب سوویت یونین کے علاوں سے پروازیں کیں تو خروشیف نے برملا پاکستان اور نیٹو کو دھمکی آمیز بیان میں پشاور کے نقشہ پر سُرخ نشان لگا کر خبردار کیا۔ خروشیف کے بعد سوویت کی حکمرانی کمیونسٹ پارٹی میں بریزنیف کے حصے میں آئی تو اس نے گرم پانیوں کی تلاش شروع کردی۔ اس موقع پر امریکن سی آئی اے نے پاکستان میں ضیاءکے ذریعہ بھٹو کو اپنے راستے سے ہٹایا پھر سوویت یونین کو بین الاقوامی جال میں پھنسانے کے لئے کارروائیاں شروع کردیں۔ امریکہ جو اس سے پہلے ویت نام میں اپنے آب کو با مشکل نکال کر اس جال سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوا تھا اس کی کوشش تھی کہ کسی طرح سوویت یونین کو کسی ایسے ہی جال میں پھنسایا جائے جس کے لئے افغانستان کا انتخاب کیا گیا۔ اس کے پاس ضیاءجیسا مہرہ پہلے سے میسر تھا انہوں نے سوویت قیادت کو گوادر کی بندرگاہ کا راستہ بتایا جو اس کے لئے افغانستان سے ہوتا ہوا جاتا ہے۔سوویت حکمرانوں سے پاکستان کا تعلقات امریکہ کے قریب ہونے کی وجہ سے کسی حد تک خراب ہوچکے تھے کیونکہ جب پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو سوویت یونین نے وہاں کا دورہ کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے امریکہ کا رُخ کرلیا۔ اس طرح پاکستان کا رُخ امریکہ کی جانب ہونے کی وجہ سے روس پاکستان کے خلاف ہو گیا حالانکہ ان کی بھی وہ ہی کوششیں تھیں کہ وہ بھی گوادر کی بندرگاہ تک ایسے ہی رسائی حاصل کرتے جس طرح اب چین نے پاکستان کے ساتھ مل کر سی پیک کا ماڈل تیار کیا ہے ایسی ہی سہولت روس کو پاکستان کے ابتدائی زمانے میں مل جاتی تو آج پاکستان کا وہ حال نہیں ہوتا جو امریکہ کی قربت کی وجہ سے تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑا بھارت جیسے ملک سے دھمکیاں کھا رہا ہے کیونکہ سوویت یونین اور پاکستان کے درمیان افغانستان کی سرزمین تھی جو چاروں طرف سے مختلف ممالک کے درمیان گھری ہوئی تھی جس کی کسی بھی سمت میں سمندر یا پانی نہیں تھا۔ اس لئے سوویت یونین گوادر کی لالچ میں پہلے افغانستان پر حملہ آّر ہوا اور اپنی فوجوں کو افغانستان میں کھسا بیٹھا۔
امریکہ پاکستان میں ضیاءالحق کو اس ہی کام کے لئے لایا تھا اس موقع پر ضیاءالحق نے امریکہ کی بھرپور مدد کرنے کا فیصلہ کیا جس سے پاکستان میں تباہی کا آغاز ہوا۔ امریکہ نے ضیاءکے ذریعہ افغانستان میں مختلف گروہوں کو سوویت یونین کے مقابلے کے لئے پاکستان کی مدد سے مسلح کرنا شروع کردیا اس موقع پر پاکستان سے بھی بڑی تعداد میں مختلف گروپوں کو افرادی قوت فراہم کرنے کے لئے تیار کیا گیا جس کے لئے مذہب کو بھی خوب استعمال کیا۔ مذہب کے نام پر جہاد کی خاطر نوجوانوں کو سوویت کافروں کے مقابلے میں تیار کیا جب کہ ان کو اسلحہ گولہ بارود تربیت فراہم کرنے والے بھی مسلمان نہیں تھے مسلمان صرف ضیاءالحق تھا جس نے اسلام کو جتنا نقصان پہنچایا اتنا کوئی کافر اسے نہیں کرسکا۔ پاکستان میں ہر فرقے کے لوگوں کو ان کے عقیدے کے مطابق جہاد کے لئے تیار کیا ان کی خوب مالی مدد کی، ان کی عملی جنگ کی ٹریننگ دی، ان کے ہاتھوں میں بندوق اور سینوں میں خودکش جیکٹیں لگا دی گئیں اور ان کو افغان جنگ میں جھونک دیا۔ اس طرح افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کی دو نسلیں جنگجوﺅں کی نسل بن کر سامنے آئیں۔
افغانستان جو ہمیشہ سے جنگجوﺅں کا علاقہ سمجھا جاتا تھا اس سرزمین کے باسی جنگی ہتھیاروں سے کھیل کر پل کر جوان ہوئے تھے۔ ان کے لئے تو یہ موت و زندگی کا کھیل تھا وہ پہاڑوں میں رہ کر ہتھیاروں کی زبان میں بات کرنے کے عادی تھے، جب افغانستان میں سوویت یونین کی فوجیں داخل ہوئیں تو اس وقت کے امریکن صدر کے مہمانوں کے طور پر جلال الدین حقانی، احمد شاہ مسعود، برہان الدین ربانی، گلبدین حکمت یار جیسے جنگجوﺅں کو وائٹ ہاﺅس کے مہمان خانوں میں ٹھہرایا جاتا تھا ان کو سوویت یونین کے مقابلے کے لئے بے پناہ مراعات سے نوازا جاتا تھا۔ اس ہی طرح پاکستان میں کچھ مدرسوں سے ان معصوم بچوں کو بھی نکال کر ان کے لئے خام مال پیش کیا جاتا۔ سرکاری سطح پر ہر طرح کی تنظیموں کو بھی اس کام کے لئے تیار کیا جاتا، یہ تنظیمیں مختلف فرقوں سے تعلق رکھتی تھیں جس کی وجہ سے ہر فرقے کی تنظیم نے اپنے اپنے لئے زیادہ سے زیادہ وسائل حاصل کرنے کے طریقے اختیار کرنا شروع کر دیئے۔ کوئی براہ راست مغربی ملکوں سے مدد حاصل کرتا، کبھی کسی تنظیم پر سعودی حکومت سے امداد حاصل کرنے کا الزام لگتا، کبھی کسی پر ایران سے مدد لینے کا الزام آتا۔ اس ہی طرح یہ تنظیمیں کبھی جہاد افغانستان کے نام پر بیرونی امداد حاصل کرتی، کبھی کشمیر کے جہاد کے لئے ملکی حکومتوں سے مراعات حاصل کرتیں، آہستہ آہستہ تمام تنظیموں نے اس قدر قوت حاصل کرلی کہ اکثر وہ کمزور حکومتوں کو بھی چیلنج کرنے لگیں جیسا کہ گزشتہ مدت کے دوران تحریک لبیک جیسی تنظیموں کے طرز عمل سے ظاہر ہوا۔
9/11 کے بعد جب ان تنظیموں پر جب سختی برتی گئی تو اس وقت کی حکومت کے سربراہ جن کے سامنے پتہ بھی کوئی نہیں ہلا سکتا تھا ان پر ایک ایسی ہی تنظیم نے دوبار قاتلانہ حملے کئے، اس دور میں پرویز مشرف کی حکومت بہت طاقتور سمجھی جاتی تھی۔ مگر اس طرح کی تنظیموں نے ہمیشہ حکمرانوں کو چیلنج کرتے رہنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کے ثبوت بارہا دیئے۔ اس کی وجہ سے دنیا بھر میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ کہیں یہ تنظیمیں اتنی طاقتور نہ بن جائیں کہ کسی وقت وہ ایٹمی اثاثوں پر بھی اپنی گرفت نہ حاصل کرلیں۔ اس خوف نے پوری دنیا کو ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کیا کہ وہ بھی بھارت کی پروپیگنڈے کا شکار نظر آئیں۔ یوں بھارت کو اس پروپیگنڈے کا بے پناہ فائدہ ہوا، موجودہ مودی کی حکومت بھی ایک طرح سے مذہبی انتہا پسندی کا سہارا لے کر کامیاب ہوئی اور اقتدار میں آئی، اس کے برخلاف پاکستان مذہبی انتہا پسند تنظیمیں ایٹمی اثاثوں تک رسائی حاصل نہ کرسکی۔ اس کے برخلاف ہندو انتہا پسند تنظیم RSS نے BJP کا روپ اختیار کرکے بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے جس کا سب سے زیادہ شکار کشمیری مسلمانوں کے ساتھ بارت میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ پاکستان کو بنایا گیا۔ بھارت نے اپنے تمام ان ہتھکنڈوں کا جواب پاکستان میں قائم تنظیموں پر الزامات کی بارش کرکے دیا اب یہ موقع ہے کہ اس قسم کی تمام تنظیموں پر بھرپور انداز میں کارروائی کرکے ان کا خاتمہ کیا جائے تاکہ بھارت کے ساتھ مغربی ملکوں کو پاکستان پر مزید الزامات لگانے کا تدارک کیا جا سکے۔
جو کانٹے ضیاءالحق کے زمانے میں بوئے گئے تھے ان کو پرویز مشرف اور ان کے بعد آنے والے فوجی حکمرانوں راحیل شریف کے ساتھ قمر جاوید باجوہ کو اپنی پلکوں سے چننے پڑ رہے ہیں جس کے لئے تقریباً ستر ہزار پاکستانیوں کے ساتھ ہمارے پاک فوج کے سپاہیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ان سانپوں سے ملک اور قوم کو بچانے کی کوششیں کیں۔ اللہ پاکستان کے عوام کے ساتھ پارک فوج کی بھی حفاظت کرے۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں