Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 563

پُرانی عمارت

ایک بہت ہی پُرانی عمارت تھی۔ جس میں تقریباً 100 خاندان رہائش پذیر تھے اس عمارت کے تمام فلیٹس میں رہنے والے مکین مالکانہ حقوق رکھتے تھے۔ اصل مالک اس عمارت کے علیحدہ علیحدہ فلیٹ بیچ کر اور ان میں رہائش پذیر لوگوں میں سے چند لوگوں کو ایک ایسوسی ایشن بنا کر دے گیا تھا۔ یہ عمارت اب اسی ایسوسی ایشن کے رحم و کرم پر تھی۔ ہر فلیٹ کا مکین ایسوسی ایشن کو ماہانہ فیس ادا کرتا تھا۔ جس کے عوض ایسوسی ایشن والے اس بلڈنگ کی مرمت، صفائی اور کوڑا کرکٹ اُٹھانے کے ذمہ دار تھے۔ ایسوسی ایشن پر تمام ذمہ داریاں پوری کرنا فرض تھا۔ یہ ایسوسی ایشن بھی ٹھیکے پر چلتی رہتی تھی اور ممبران بھی بدلتے رہتے تھے۔ کیونکہ کچھ لوگ یہ عمارت چھوڑ کر جاتے تھے اور نئے آجاتے تھے۔ انہی میں سے ایسوسی ایشن کے ممبران تھے۔ اسی طرح اس بلڈنگ میں آنے والا ایک نیا شخص عرفان بھی اسی ایسوسی ایشن کا ممبر بنا اس نے جب بلڈنگ کی حالت دیکھی تو اپنے ساتھیوں سے کہا یہ عمارت تو مجھے بہت مخدوش لگتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کافی زمانے سے اس کی مرمت پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔ کیا کبھی اس عمارت کا انسپکشن بھی کرایا گیا ہے۔ لوگوں نے نفی میں جواب دیا۔ اس بات پر عرفان کو کافی تشویش ہوئی۔ اس نے کچھ لوگوں سے اجازت لے کر ان کے فلیٹوں کا ندر سے جائزہ لیا تو مزید پریشان ہوگیا۔ اس نے ایسوسی ایشن کے ممبران سے کہا ان فلیٹس کے مکینوں سے جو فیس لی جاتی ہے اس سے اس عمارت کی مرمت آسانی سے ہوسکتی تھی، صفائی اور کوڑا کرکٹ اُٹھوانے کے بعد اچھی خاصی رقم بچنا چاہئے۔ آخر یہ سب پیسہ کہاں گیا۔ اس کے سوال پر سب نے کندھے اُچکا دیئے کہ ہمیں کیا معلوم، ہم بھی نئے ہیں۔ پرانے لوگوں کے پاس حساب ہوگا۔ بالاخر عرفان نے فیصلہ کیا کہ کسی پرائیویٹ کمپنی سے اس عمارت کا انسپکشن کرایا جائے گا۔ عمارت کی انسپکشن کے بعد انسپکٹر اور سپروائزر نے کہا کہ اس عمارت کی حالت بہت خراب ہے اور یہ کسی وقت بھی زمین بوس ہو سکتی ہے۔ اس عمارت کے رہائشی سخت خطرہ میں ہیں۔ بہتر ہے کہ اس عمارت کو فوراً خالی کروالیا جائے۔
عرفان نے ایسوسی ایشن کے تمام ممبران کی میٹنگ بلوائی کہ کیا کیا جائے؟ فیصلہ یہ ہوا کہ عمارت کے مکینوں سے اسے کچھ عرصے کے لئے خالی کرانے کی بات کی جائے۔ پرانے لوگوں کے خلاف رپورٹ کی جائے اور ان سے ایسوسی ایشن کا پیسہ نکلوایا جائے لیکن پہلے تمام فلیٹس کے مکینوں سے تھوڑا تھوڑا پیسہ لیا جائے اور باقی قرضہ لے کر عمارت کو ٹھیک کیا جائے اور اس کی مرمت کروائی جائے لیکن عمارت کے مکینوں کوجب صورت حال سے آگاہ کیا گیا تو وہ سب بُری طرح بپھر گئے۔ عرفان نے سمجھایا کہ کچھ لوگ اپنے رشتہد اروں کے یہاں چلے جائیں، کچھ اگر سستے ہوٹلوں میں جاسکتے ہیں اور ہم میدان میں کیمپ کا انتظام بھی کرسکتے ہیں۔ بس کچھ دنوں کی تکلیف ہے لیکن فلیٹ کا کوئی مکین ذرا سا بھی تکلیف اُٹھانے کو تیار نہیں تھا اور انہوں نے سارا الزام عرفان کے سر تھوپ دیا کہ تمہارے آتے ہی یہ مصیبت آگئی۔ اب تک ہم سکون سے رہ رہے تھے۔ عرفان نے سمجھایا کہ آپ کو کسی نے آنے والے خطرے کی اطلاع نہیں دی، یہ عمارت کسی وقت بھی گر سکتی ہے۔ پرانے لوگوں نے مرمت نہیں کرائی اور سارا پیسہ کھا گئے لیکن کوئی بھی شخص اس کی بات سننے کو تیار نہیں تھا، کسی کو بھی آنے والے خطرے کا احساس نہیں تھا۔ وہ اس تمام پریشانی کا ذمہ دار عرفان کو سمجھتے تھے اور اسے جھوٹا کہہ رہے تھے اور ان کا مطالبہ یہ بھی تھا کہ عرفان فوری طور پر اس عمارت کو چھوڑ کر چلا جائے چونکہ ایسوسی ایشن کے کچھ ممبران بھی ملوث تھے۔ لہذا وہ بھی زور لگا رہے تھے کہ عرفان یہاں سے چلا جائے۔
یہ ہمارا مزاج ہے ہم کل کے خطرے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتے اور بدعنوان لوگوں کے ہاتھ مضبوط کرتے رہتے ہیں اور خود بھی جائز ناجائز طریقے سے صرف آج کی فکر کرتے ہیں۔ اپنی اپنے خاندان اپنے بچوں کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ کل کیا طوفان آنے والا ہے اس کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتے حالانکہ یہ ہوسکتا ہے کہ آج اگر تھوڑی سی تکلیف اُٹھا لیں تو کل آنے والا طوفان کا رُخ موڑا جا سکتا ہے اور اس میں سب کا بھلا ہوگا لیکن نہیں آج کیوں اُٹھائیں، اگر کل کی فکر ہونے لگے تو شاید موت پر بھی یقین ہو جائے۔ آج کی پُرتعیش زندگی کا حساب بھی دینا ہوگا اور حساب خراب ہونے کی صورت میں ہمیشہ کی زندگی عذاب میں گزرے گی لہذا آج تھوڑی سی تکلیف اٹھا کر حرام سے توبہ کرلی جائے، اچھے اعمال اپنائے جائیں تو کل کے اس آنے والے طوفان کو بدلا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہوتی ہے کہ معاشرے کو خراب کرنے والے عناصر کی نشاندہی کی جائے، ان کی حوصلہ شکنی ہو، آج ہمارا ملک جن حالات میں ہے اس کی وجہ بدعنوان بے ایمان قیادت، بدکردار حکمران اور ان کا ٹولہ ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد بھی ان بدعنوانیوں میں شامل ہے۔ ملک جن حالات سے گزر رہا ہے وہ اس خستہ حال عمارت کی طرح ہے جسے مرمت کی ضرورت ہے لیکن اس کے مکین بضد ہیں کہ ہم ذرا سی بھی تکلیف اُٹھانے کو تیار نہیں ہیں۔ ذرا تاریخ اٹھا کر دیکھیں، جاپان، کوریا، چین، جرمنی، اٹلی اور یوروپ کے کئی ممالک جنگ عظیم کے بعد بالکل تباہ ہو چکے تھے۔ کچھ ممالک میں تو صرف ایک وقت سوکھی ڈبل روٹی ملتی تھی۔ کسی لیڈر نے کسی حکمران نے کوئی قربانی نہیں دی لیکن عوام کو ایمان دارانہ قیادت ملی اچھے حکمران ملے جنہوں نے ملک کو سنبھالا اور قربانی صرف عوام نے دی اور اپنے ملک کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا لیکن ہمارے تو نخرے ہی نہیں ملتے ہر شخص اپنے آپ کو برگر فیملی کا ممبر سمجھے ہوئے ہے۔
ہمارے حالات اور قوم کو بگاڑنے کی وجہ بدعنوان اور چور حکمران تھے جن میں سب سے پہلے بھٹو کا نام آٹا ہے۔ آج عمران خان کو فوج کا لاڈلا کہا جاتا ہے لیکن سب سے بڑا لاڈلہ تو بھٹو تھا سب سے پہلے اسکندر مرزا کے جوتے پالش کرکے اسے اپنی وفاداری کا یقین دلا کر اس کا لاڈلہ بنا پھر جب ایوب خان نے اسکندر مرا کا تختہ الٹا تو بھٹو نے فوراً ایوب خان کو ڈیڈی بنا لیا۔ پھر اس کا لاڈلہ بن گیا۔ اس کی خدمت اور چاپلوسی کرکے اسی کی پیٹھ میں خنجر گھونپا اور اس کے خلاف تحریک چلا کر استعفیٰ دلوایا۔ اس کے بعد یحییٰ خان کو شراب میں ڈبو کر خود سازشوں کے تانے بانے بننے لگا، اندرا گاندھی سے بھی خفیہ رابطہ کیا اور ایک بڑی سازش کی بنیاد ڈالی جس کے تحت مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنا اور مغربی پاکستان میں اپنی حکومت قائم کرنا تھا۔ دنیا کو دکھانے کے لئے الیکشن کرائے گئے اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ جیت مجیب الرحمن کی ہے اس نے مجیب الرحمان کو مشرقی پاکستان علیحدہ کرنے کا کہا لیکن مجیب نے انکار کردیا۔ الیکشن میں بھٹو نے 300 میں سے صرف 81 نشستیں حاصل کیں جب کہ مجیب الرحمن نے 160 نشستیں حاصل کیں۔ کیا بھٹو کو اس انجام کا معلوم نہیں تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اب اسے کیا کرنا ہے لہذا ادھر ہم اور اُدھر تم۔ وہ ایک بہت بڑا اداکار تھا، جذباتی اور جھوٹی تقاریر سے مگرمچھ کے آنسو بہا کر عوام کو بے وقوف بنا کر اپنے قابو میں کیا اور مغربی پاکستان کو اپنے سحر میں اُلجھا کر ملک کے دو ٹکڑے کروا دیئے کیونکہ اگر دو ٹکڑے نہ کرواتا تو اسے مغربی پاکستان میں حکومت کیسے ملتی۔ اقوام متحدہ نے چند یوروپی ممالک نے یقین دلایا کہ وہ تصفیہ کرادیں گے اور بنگلہ دیش علیحدہ ملک نہیں بنے گا لیکن بھٹو نے چالاکی سے وہ قرارداد پھاڑ دی اور وہاں سے چلا گیا کیونکہ تصفیے کی صورت میں حکومت مجیب الرحمن کو دینا پڑ جاتی۔ مغربی پاکستان میں حکومت بنانے کے بعد اس کے تمام وزراءنے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا، ملک میں کرپشن کی بنیاد ڈالی اور عوام کا ایک بڑا طبقہ رشوت، چوری، بدعنوانی میں ملوث ہو گیا۔ عوام کی ایک بڑی اکثریت کی جڑوں میں کرپشن اس حد تک بیٹھ چکا ہے کہ انہیں اپنا مسیحا زرداری اور نواز نظر آتا ہے وہ کسی عرفان کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں