تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 478

پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور فوج

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت کے مسلمانوں کے لئے جس طرح کے رویہ کا مظاہرہ کیا ہے اس کا اندازہ بالعموم وہاں کے مسلمانوں سے بالخصوص کشمیر کے لوگوں کے خلاف اس کے دل میں بسے ہوئے بغض سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس دور میں کشمیریوں کے ساتھ جس طرح کے ظلم و زیادتی کے مناظر دنیا بھر کے میڈیا پر دکھائے جارہے ہیں اس طرح کے حالات کے بارے میں ہمارے اکابرین نے کئی صدیوں پہلے اندازے لگا لئے تھے، یہ ہی وجہ ہے کہ ایک طرف سرسید نے مسلمانوں کے لئے علمی اور فکری تحریکیں شروع کیں، دوسری طرف مسلمان سیاسی رہنماﺅں نے اس عصبیت کا بہت پہلے اندازہ لگا لیا تھا جس کا مظاہرہ اب نریندر مودی کی مسلمانوں کے ساتھ نفرت سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب برصغیر کے عوام نے یہ اندازہ لگایا کہ انگریز کی حکومت جانے والی ہے تو ان کی تحریک آزادی میں اور تیزی آگئی، اس موقع پر مسلمانوں کے سیاسی رہنماﺅں نے یہ جان لیا کہ جب بھی ہندوستان میں غیر مسلموں کی حکومت قائم ہوئی تو مسلمان اپنے حقوق سے محروم کر دیئے جائیں گے۔ اس لئے سب سے پہلے انہوں نے جداگانہ انتخابات کا مطالبہ کیا کہ مسلمان اپنی آبادی کے تناسب سے حکومتی اداروں میں نمائندگی حاصل کرسکیں۔ اس مطالبہ پر ہندوستان کے تمام مسلمان متحد تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو مستقبل کے نظام میں ان کی آبادی کے اعتبار سے نمائندگی حاصل ہو مگر جب کانگریس کے غیر مسلم رہنماﺅں نے مسلمانوں کے اس جائز مطالبہ کو تسلیم نہیں کیا تو مسلمان رہنماﺅں نے ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا۔ یوں بڑی خون ریزی کے بعد پاکستان کا وجود عمل میں آیا۔
آج کے دور میں بھارتی رہنماﺅں کی مسلمانوں سے نفرت کی وجہ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک پاکستان کے مسلمان قائدین کی نظریں کتنی دور اندیش تھیں جب ان کے حقوق غصب ہونے کا اندیشہ پیدا ہوا تو انہوں نے تقسیم کا نعرہ لگا کر پاکستان کی منزل حاصل کی۔ موجودہ دور میں بھی تقریباً اس قسم کی صورت حال صوبہ سندھ میں درپیش ہے جس میں پاکستان پیپلزپارٹی اپنی سندھی اکثریت کے سہارے تقریباً گیارہ سال سے مسلسل حکومت کررہی ہے جس کو اٹھارویں ترمیم ک ے بعد سے وہ تمام اختیارات بھی حاصل ہیں جو ایک زمانے میں مرکز کے پاس تھے مگر اس کی حکومت نے اپنی نا اہلی کی بدولت نہ صرف سندھ صوبے کو بدحالی کا مرکز بنا دیا بلکہ اس کا سب سے بڑا خمیازہ کراچی اور بالائی سندھ کے لوگوں کو اٹھانا پڑا۔ کراچی جو گزشتہ 70 سالوں سے مرکز اور صوبے کو بے پناہ وسائل مہیا کرنے والا شہر ہے وہ کچرا کنڈی بننے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے شہری حقوق سے محروم کیا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہر طرح کا امتیازی سلوک برتا جارہا ہے کیونکہ یہاں سے پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک موجود نہیں ہے۔ اس لئے یہاں کے لوگوں کو حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے اور جب بھی ان کے حقوق کی بات کی جائے تو پیپلزپارٹی والے صوبائی خودمختاری کا نعرہ لگا کر آئین کا حوالہ دیتے ہیں، کبھی مرکز کو سندھو دیش کا ہوا کھڑا کرکے ڈرانا شروع کر دیتے ہیں اور ایک دم قومی جماعت سے لسانی جماعت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ الیکشن میں وہ جن سندھی وڈیروں سے زبان کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرکے منتخب ہوتے ہیں، اقتدار حاصل کرنے کے بعد ان کی فلاح اور بہبود سے بھی غافل ہو جاتے ہیں۔ چہ جائے کہ بالائی سندھ کے عوام جنہوں نے ہمیشہ پیپلزپارٹی کے رویہ کی وجہ سے اس کے خلاف ووٹ ڈالا، پیپلزپارٹی کا بھی رویہ بالائی سندھ کے عوام کے ساتھ اس طرح کا ہی رہا، جیسا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف انڈین نیشنل کانگریس کا رہا۔ جس نے دکھاوے کے لئے تو کچھ مسلمانوں کو اپنی پارٹی میں بڑے عہدے بھی دیئے اور مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے مختلف طرح کی ترغیبات بھی پیش کیں لیکن مسلمانوں نے اپنے سیاسی رہنماﺅں پر بھرپور اعتماد کرکے پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان تمام ترغیبات کو یکسر مسترد کردیا۔ کانگریس کے مسلمان رہنما مسلمانوں کو باور کرواتے رہے کہ وہ جس راستے پر چل کر مسلم لیگ کے وعدوں پر اعتماد کررہے ہیں، مستقبل میں ان کو سراسر نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا مگر ہندوستان کے تمام علاقوں کے مسلمانوں نے بالعموم اور اقلیتی علاقوں کے مسلمانوں نے بالخصوص تحریک پاکستان کے لئے اپنی تمام تر حمایت کا بھرپور استعمال کیا اور پاکستان کی منزل حاصل کرلی۔ یوں جب قیام پاکستان کے بعد ملک میں مسلم لیگ کے پاس حکومت کی باگ ڈور آئی تو انہوں نے ان مقاصد اور وعدوں سے انحراف کرنا شروع کردیا جو انہوں نے تحریک پاکستان کے موقعوں پر مسلمانوں سے کئے تھے یعنی ایک طرف مسلمانوں نے کانگریس کی مسلم دشمنی کا نشانہ بننے پر مجبور ہوئے، دوسری طرف مسلم لیگ جس کو وہ اپنی جماعت سمجھتے تھے اس کے دعوﺅں پر اعتبار کرکے دربدر ہو گئے۔
مسلم لیگ جو قیام پاکستان کے فوراً بعد قائد اعظم اور لیاقت علی خان سے محروم کردی گئی تھی۔ اس نے مسلمانوں کی بنیادی سہولتوں پر توجہ دینے کے بجائے اقتدار کی ڈور میں ایک دوسرے کو پیچھے دھکیل کر اقتدار کے حصول میں مشغول ہو گئی اور مسلمانوں ان وعدوں اور نعروں پر عملدرآمد کا انتظار کرتے کرتے ایک نسل ختم ہو گئی۔
یہ صورتحال اب سندھ کے شہری علاقوں کے سامنے ہے انہوں نے پیپلزپارٹی کے رویہ کی وجہ سے اس کو اپنے ووٹوں سے دور رکھا اور گزشتہ تیس سالوں سے ایم کیو ایم کو اس ہی طرح سپورٹ کیا جس طرح برصغیر کے مسلمانوں نے مسلم لیگ کی حمایت کی اور بعد میں اس کے رویہ کی وجہ سے مایوسی کا بھی شکار ہوئے۔ سندھ کے شہری عوام ایم کیو ایم کو اپنے حقوق کا ضامن سمجھ کر نہ صرف ووٹوں سے نوازا بلکہ جب بھی انہوں نوٹوں کی ضرورت پڑی تو نوٹ بھی دیئے۔ عام طور پر الیکشن میں امیدوار اپنے ووٹروں پر مختلف نوازشات، مراعات کے ساتھ نوٹ بھی نچھاور کرتے ہیں بلکہ یہاں اس کے برعکس ووٹروں نے نہ صرف اپنے امیدواروں کو ووٹ بھی دیئے، ساتھ ساتھ نوٹوں سے بھی نوازا اور وقت آنے پر اپنا خون بھی پیش کیا۔ اس طرح امیدواروں کو بغیر ان کا کوئی ذاتی سرمایہ خرچ کئے اسمبلیوں میں اپنی نمائندگی کے لئے منتخب کیا۔ مگر ان کے اپنے ہی نمائندوں نے اپنے عوام سے ہر طرح کی مراعات حاصل کرنے کے باوجود ان کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئے۔ جب سے ایم کیو ایم کو اس کے بانی سے محروم کیا تو کراچی کے عوام کے ساتھ شہری علاقوں کے عوام نے فوج کی طرف دیکھا اب انہوں نے اپنے قائد کی قربانی پیش کردی مگر فوج کی مخالفت نہیں کی، فوج نے بھی شہری علاقوں میں ایم کیو ایم سے وابستہ شدت پسندوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کرکے کراچی اور شہری علاقوں کے عوام کو معاشی دہشت گردوں کے حوالے کردیا۔ جنہوں نے اپنی معاشی دہشت گردی کے ذریعہ کراچی اور شہری علاقوں کے عوام کو ہر طرح کی سہولتوں سے محروم رکھا اور ان سے اس بات کا انتقام لیا کہ شہری علاقوں کے عوام نے کس طرح ان کو اپنے ووٹوں سے دور رکھا۔ شہری علاقوں کے عوام اس بات کے منتظر رہے کہ جس طرح فوج نے شمالی علاقوں اور فاٹا میں دہشت گردوں کا صفایا کرکے وہاں پر مختلف معاشی اصلاحات کے ذریعہ بے پناہ وسائل کو استعمال کیا اور وہاں کے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھ کر اپنی فلاحی اور رفاحی منصوبوں پر عمل درآمد کیا اس طرح کراچی اور شہری علاقوں میں فوجی آپریشن کے بعد ان علاقوں کے عوام کی سہولیات کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کردیں گے اس کے برعکس شہری علاقوں کے عوام کو معاشی دہشت گردوں کے حوالے کرکے اپنے آپ کو بری الزمہ کر لیا جس کی وجہ سے یہاں کے عوام ہر طرح کی شہری اور بنیادی حقوق سے محروم زندگی گزارنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور بے کسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں