Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 437

چینی کہانی

یہ بات تو روز اوّل سے عیاں ہے کہ حکمرانی ہمیشہ طاقت کے بل بوتے پر ہی کی گئی ہے۔جو جسمانی طور پر زیادہ طاقت ور ہوتا تھا حکمرانی کا تاج وہی پہنتا تھا ، پھر آہستہ آہستہ مال و زر نے جسمانی طاقت کی جگہ لے لی اب اگر کوئی شخص جسمانی طور پر کمزور بھی ہوتا تھا تو وہ دولت سے جسمانی طاقتیں بھی خرید لے لیتا تھا جو اس کے غلام ہوتے تھے۔ایک واحد مذہب اسلام تھا کہ جب لوگ اس سے روشناس ہوئے تو ابتدائی دور میں اس کے پھیلنے میں نا جسمانی طاقت شامل تھی اور نا ہی مال و دو لت کی طاقت کا کوئی عمل دخل تھا بلکہ یہ صرف کردار کی طاقت تھی حسن سلوک رواداری در گزر اور اصلاح کا انداز تھا جو لوگوں کے دلوں میں گھر کررہا تھا یہ دور بھی چند خلافتوں تک ہی قائم رہا اس کے بعد دنیا پرانے دور کی طرف لوٹ آئی اب دوبارہ مال و زر کی طاقت پر حکومتیں ہونے لگیں جو آج تک قائم ہیں۔اس کے بعد حکومت کرنے کے لئے ضروری نہیں سمجھا گیا کہ حکمران بہت زیادہ تعلیم یافتہ یا بہت زیادہ عقل مند ہو کئی ایسے بادشاہ گزرے اور کئی ایسے حکمران بلکہ آج کے دور میں بھی موجود ہیں کے نا تو وہ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں اور نا ہی بہت عقل مند لیکن طاقت ہے تو صرف دولت کی لہذا حکومت چلانے کے لئے مشیروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور یہ مشیر ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی تعلیم کے لئے وقف کردی یہ لوگ حکمران اور کئی وزیروں سے کئی گنا زیادہ قابل اور سمجھ دار ہوتے ہیں لیکن یہ حکمران کے نوکر ہوتے ہیں۔ سنا تو ہمیشہ یہ ہے کہ حکمران چاہے جاہل ہو یا پڑھا لکھا اپنے مشیر ہمیشہ اعلی’ تعلیم یافتہ اور سمجھ دار رکھتا ہے ہمارے ملک میں پہلی مرتبہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ کافی عرصے بعد ایک اعلی’ تعلیم یافتہ شخص حکمران بنا ہے لیکن مشیروں کی ٹولی جاہلوں پر مشتمل ہے اور المیہ یہ ہے کہ ان کے بعض مشوروں پر عمل بھی کررہا ہے۔میں آپ کو چین کی ایک قدیم کہانی پڑھنے کو دیتا ہوں جس میں ہمارے حالات کی تھوڑی بہت جھلک موجود ہے۔پہلے تو یہ کہ چین میں پرانے وقتوں کی کہانیاں آج تک مشہور ہیں جو بچّوں کے علاوہ بڑے بھی بہت شوق سے سنتے اور پڑھتے ہیں حقیقی اور تصوّراتی کرداروں والی ان کہانیوں میں حوصلہ ،ہمّت ، شجاعت اور محنت کا سبق ہے جس کے باعث انہیں ایک حقیقت کی طرح بچّوں اور بڑوں کو سنایا اور پڑھایا جاتا ہے ان میں ‘میرے پاس تم ہو’ جیسی کوئی خرافات نہیں ہوتی ہیں۔ان میں سچّی کہانیاں بھی ہوتی ہیں یہ ذہن کو تازہ دم کرتی ہیں ہماری کہانیوں کی طرح الجھا نہیں دیتیں کہ قوم اس کے اثر سے نکل ہی نہیں پارہی ہے۔بہرحال چین میں آج بھی نانا ، نانی دادا ،دادی بچّوں کو ساتھ بٹھاکر کہانیاں سناتے ہیں جس کا سلسلہ ہمارے ملک میں دم توز چکا ہے۔بڑے بڑے جانور جن بھوت اور شیطانی طاقتوں سے انسان کا مقابلہ یہ کہانیاں آج بھی روز اوّل کی طرح زندہ ہیں اور چین میں سالانہ تہوار کے موقع پر ان کرداروں کا گیٹ اپ کرکے ان کی پریڈ نکالی جاتی ہے بہرحال ایک چینی کہانی شروع ہوتی ہے اس کہانی کا انتخاب میں نے اپنے ملک کے حالات دیکھ کر کیا ہے۔ جب جب جمہوریت آئی یہی کچھ ہوا ہے۔چین کی ایک سچّی کہانی جس کا سچّا کردار پرانے دور کا بادشاہ ” کاو¿ ” کتابت کی غلطیوں میں یہ ” و” کے اوپر آج کل مد نہیں آرہا ہے لہذا اس کو اسی طرح پڑھا جائے۔[ نظام بھائی اگر توجّہ دیں تو صحیح بھی ہوسکتا ہے] بہرحال کاو¿ بہت ذہین اور جنگی فنون کا ماہر تھا اس کی کتاب میں شکست کا لفظ نہیں تھا کاو¿ اپنی فوج کو لے کر ایک ایسے شہر کو فتح کرنے نکلا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ شہر اپنی نوعیت کا واحد شہر ہے اور ایسے ماہرانہ طریقے سے اس کو تعمیر کیا گیا ہے کہ اسے کوئی بھی فتح نہیں کرسکتا بڑے بڑے قلعہ شکن اس مقام پرآکر مات کھاجاتے ہیں۔اس شہر کا نام تھا “ہواگون” وشمن کے حملوں سے بچنے کے لئے اس شہر کی فصیلیں خصوصی طور پر تیّار کی گئی تھیں ایک مرتبہ شہر کے دروازے بند ہوجائیں تو ناممکن تھا کہ اس شہر میں کو ئی داخل ہوسکے ” کاو¿ ” اس شہر کو فتح کرنے کا عزم لے کر جب اپنی فوج لے کر وہاں پہونچا تو اسے اندازہ ہوگیا کہ اس شہر کو فتح کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ہزار ہا کوششوں کے باوجود وہ شہر کی فصیل عبور نا کرسکا۔دوسری طرف کاو¿ کے لشکر کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے شہر سے مسلسل تیر اندازی جاری تھی جن سے بچنا بھی ایک مشکل مرحلہ تھا یہ تمام صورت حال دیکھ کر کاو¿ سخت طیش میں آگیا۔اور اس نے غصّے میں اعلان کیا کہ اگر میں اس شہر میں داخل ہوگیا تو یہاں رہنے والے ایک ایک شخص کو زندہ دفن کردوں گا۔کاو¿ کی یہ بات آنا” فانا” پورے شہر میں پھیل گئی۔لوگوں کر یہ بھی معلوم تھا کہ کاو¿ اپنے ارادے کا بہت پکّا ہے ایک مرتبہ کوئی عہد کرلیتا ہے تو اسے پورا ضرور کرتا ہے اس خوف سے انہوں نے اپنی جدو جہد اور تیز کردی کہ کسی بھی قیمت پر شہر کے دروازے نا کھولے جائیں اور اس شہر کو کاو¿ کے حوالے نا کیا جائے زندہ دفن ہونے سے بہتر ہے کہ جان دے دی جائے۔لہذا کافی وقت گزرجانے کے بعد بھی کاو¿ کو کامیابی نصیب نا ہوئی اس صورت حال میں کاو¿ اور اس کی فوج کی پریشانی کے ساتھ ساتھ شہر والوں کی پریشانی میں بھی اضافہ ہورہا تھا کیوں کے کافی دن گزرگئے تھے اور راشن پانی بھی ختم ہورہا تھا۔کاو¿ نے پریشان ہوکر فوج کے جرنیلوں سے میٹنگ کی میٹنگ کے دوران جنرل ین نے کھڑے ہوکر کہا جنگی حکمت عملی میں دشمن کا گھیرو اتنا تنگ نہیں ہونا چاہئے کہ جان دینے کے سوا اس کے پاس کوئی راستہ نا رہے سونے پر سہاگہ یہ کے آپ کا زندہ دفن کردینے کا اعلان لہذا شہر والوں نے زندہ دفن ہونے سے بہتر لڑ کر مرجانا قبول کیا اب وہ مرجائیں گے لیکن شہر میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔پھر کیا کرنا چاہئے کاو¿ نے پریشان ہوکر کہا۔ اگر ہم ان کو یقین دلادیں کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ ان کو زندہ دفن کیا جائے اور ان کو امان اور پناہ کا یقین دلاکر باہر نکلنے کے لئے راستہ بنادیا جائے تو یہ سب باہر آجائیں گے کونکہ میری اطلاع کے مطابق ان کے پاس راشن ختم ہوچکا ہے اور ہمارے حالات بھی اچھے نہیں ہیں شکست سے بہتر ہے کہ ہم انہیں باہر نکلنے کا ایک موقع دیں جنرل ین کی بات سن کر کاو¿ نے فورا” آرڈر جاری کردئے اور وہی ہوا جب شہر والوں کو یقین ہوگیا کہ نا تو وہ زندہ دفن ہوں گے اور نا ہی یہاں محصور رہ کر بھوک سے مریں گے تو وہ لوگ فورا” ہی باہر آگئے اور کاو¿ نے آسانی سے شہر پر قبضہ کرلیا یہاں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہماری ہر آنے والی جمہوری حکومت عوام کا عرصہ حیات اتنا تنگ کردیتی ہے کہ ان کا سانس لینا بھی دوبھر ہوجاتا ہے اور نتیجے میں حکومت فیل ہوجاتی ہے اگر عوام کے دلوں پر قبضہ کرنا ہے تو ان کے لئے ایک راستہ تو چھوڑا جائے تاکہ وہ مشکلات سے باہر نکل سکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں