تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 438

ڈائناسور حاکم

کہتے ہیں کہ ایک حاکم کے کئی بیٹے تھے۔ ان میں سے ایک معمولی شکل و صورت اور کوتاہ قد تھا۔ اس وجہ سے وہ باپ کی توجہ سے اکثر محروم رہتا جب کہ اس کے دوسرے بھائیوں کو حکمراں خاص توجہ اور اہمیت دیتا، ایک دن اس بیٹے نے اس ناقدری سے عاجز آکر اپنے والد سے پوچھ ہی لیا کہ بے شک انسان کی شکل و صورت اور قد و قامت بھی لائق توجہ ہوتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ انسانیت کا اصل جوہر انسان کی ذاتی خوبیاں اور خصوصیات اور حسن صورت میں ہی پیوستہ ہوتی ہیں۔ اے میرے والد حقیر جان کر مجھے نظر انداز نہ فرمائیے بلکہ میری ان خوبیوں پر نظر ڈالئیے جو اللہ پاک نے مجھے عطا کی ہیں۔ میں اپنے جیسے بھائیوں کے مقابلے میں بے شک کمزور اور ان جیسا طویل القامت وجاہت کا حامل نہیں لیکن خدا نے مجھے استقامت اور شجاعت جوہر بخشا ہے۔ مخالف پر شیر کی طرح چھپٹتا ہوں اور اس وقت تک میدان سے باہر نہ نکلتا ہوں جب تک مخالف کو پچھاڑ نہ دوں۔
حاکم کا اس پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا اور اس کے باوجود والد نے اس کو کچھ نہیں اہمیت دی۔ لیکن پھر خدا کا کیا کرنا ہوا کہ مخالف حکمران نے دوبارہ مقابلے کا اعلان کردیا اس وقت تمام منظور نظر شہزادے گھبرا کر ادھر ادھر ہونے لگے تو اس چھوٹے شہزادے نے بڑھ کر ان مخالفین حکمرانوں کا مقابلہ پر للکارنا شروع کردیا۔ پھر باپ اور بھائی بھی غیرت میں آکر مقابلے پر کھڑے ہو گئے۔ مخالفین بہت طاقتور تھے اور قریب تھا کہ کامیاب ہو جاتے تو اس چھوٹے شہزادے نے بڑھ کر سب بھائیوں کو غیرت دلائی اور آگے بڑھ کر مقابلہ کرتے ہوئے بھائیوں کا حوصلہ بڑھایا کہ ہمت سے کام لو بہادروں، بہادروں کی طرح مقابلہ کرو، میدان سے بھاگنے والے مرد بہادر کہلانے کے حق دار نہیں، انہیں عورتوں کی طرح گھر بیٹھنا چاہئے۔ یہ بات سن کر اس کے ساتھی بھاگتے ہوئے واپس آئے اور ایسا زبردست مقابلہ کیا کہ مخالف شکست کھانے پر مجبور ہو گئے۔ حکمران اپنے اس بہادر اور کامیاب بیٹے کی صلاحیتوں کے اعتراف پر مجبور ہو گیا اور اس کو اہم ذمہ داریوں پر معمور کرنے کا اعلان کرنے پر خوشی خوشی آمادہ ہوگیا۔
مگر اس کے لہیم شہیم بھائیوں کو اپنے اس بہادر اور وفادار بھائی کی کامیابی ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے مختلف طرح کی سازشیں کرنے میں اپنا وقت گزارنا بہتر سمجھا بجائے اپنے اندر ہی اس طرح کی اعلیٰ خصوصیات پیدا کرنے کے۔
موجودہ زمانے میں اس ہی طرح کی صورت حال ہمارے ملک کی ہے جہاں پر تقریباً اس ہی طرح کے حالات ہیں جہاں میرٹ کے بجائے اقربا پروری کا دور دورہ ہے جس کی ایک تازہ مثال کرکٹ کی ہے۔ فواد عالم کو تقریباً دس سال تک اس کی قابلیت کے باوجود کرکٹ کے ڈائناسور حاکموں نے ٹیسٹ میچوں سے دور رکھا اور اس کے ساتھ مختلف حیلے بہانوں سے زیادتی کرتے رہے اور اپنے چاہنے والوں کو مراعات سے نوازتے رہے یہ ہی وجہ ہے ہمارے ملک میں کرکٹ کے ساتھ ہر طرح کے کھیلوں کا معیار مسلسل گرتا چلا جارہا ہے۔ معاشرے کے ہر شعبہ میں نا اہل لوگ اعلیٰ مقام کے کرتا دھرتا بن بیٹھے ہیں اور ملکی وسائل کا بے دریغ استعمال کرنے کے باوجود غیر معیاری صلاحیتوں کے باوجود کسی بھی شعبہ میں کامیابی حاصل نہیں کر پارہے ہیں۔ غریب عوام پر ان کی استطاعت سے زیادہ ٹیکس لگا کر وسائل ان کے حوالے کیا جاتے ہیں وہ ان کا استعمال بے دردی سے کرتے ہیں اگر کوئی انفرادی صلاحیتوں سے کام لے کر ملک کی خدمت کرنے کا کوئی کارنامہ انجام دیتا ہے تو اس کے خلاف سازشیں شروع کر دیتے ہیں۔
سرفراز کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جارہا ہے، وقار یونس ہوں یا مصباح الحق یا ان کو اس کام پر معمور کرنے والے ان کو نہ صرف ان کے عہدوں سے ہٹا کر ان سے اب تک دی ہوئی رقم بھی واپس لی جائے اور ان دونوں افراد کو سرفراز کی طرح میدان میں کھلاڑیوں کو پانی پلانے پر معمور کیا جائے۔ جنہوں نے سرفراز کو جس نے مسلسل اپنے ملک کو کامیابیوں سے ہمکنار کیا اس کو میدان میں کھلاڑیوں کو پانی پلانے پر معمور کیا ہوا تھا ان کی رعونت کا عالم یہ ہے کہ میڈیا پر سب کچھ آنے کے باوجود مسلسل ڈھٹائی سے یہ کام کئے جارہے تھے بجائے اپنے کئے پر پشیمان ہونے کے۔ اس کے ساتھ ہی پچھلے دور کے تمام کرکٹ بورڈ کے عہدیداروں کو میڈیا پر آکر معافی مانگنی چاہئے کہ انہوں نے جو فواد عالم کے ساتھ زیادتی کی اور اس کے دس بہترین سال ضائع کروانے اور اب سرفراز کے ساتھ سعود شکیل، تابش خان کے ساتھ مسلسل اس ہی طرح کی نہ انصافیوں کا سلسلہ قائم رکھا ہوا ہے۔ میرٹ کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے بعد قائم ہونے والی کرکٹ اور کھیلوں کی ٹیمیں تیزی سے ترقی کرتی چلی جارہی ہیں اور ہمارا معیار دن بہ دن اس ہی وجہ سے گر رہا ہے کہ ہم نے زندگی کے ہر شعبہ میں میرٹ کو چھوڑ کر اقربا پروری اور ذاتی مفادات کو مقدم سمجھا جارہا ہے۔ ہمارے ملک میں تیسرے درجہ کے کھلاڑیوں کو مستحق کھلاڑی پر فوقیت دے کر قومی تیموں میں شامل کیا جاتا ہے۔ جب بین الاقوامی مقابلوں میں پے در پے شکست سے دوچار ہوئے ہیں تو ان کھلاڑیوں پر اپنا غصہ اتارنے پر مجبور ہو جائے۔ ان نا اہل کھلاڑیوں سے زیادہ ان کو سلیکٹ کرنے والوں کو مورد الزام ٹھہرانا چاہئے۔ ہمارے معاشرے کے اعلیٰ ترین عہدوں کے بارے میں بھی یہ ہی کہا جاتا ہے کہ نا اہلوں کو سلیکٹ کرکے ملک اور معاشرے کو غیر معمولی نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں ہمارے کھیلوں کا معیار پہلے کے مقابلے میں مکمل طور پر زوال پذیر ہو گیا ہے۔ دیکھا جائے تو ہماری کرکٹ ٹیم پاکستان بننے کے قیام کے بعد تیزی سے ترقی کرتی رہی جب ہم نے حنیف برادران کے ساتھ فضل محمود، امتیاز احمد جیسے کھلاڑیوں کے ساتھ دنیا بھر کی بہترین کرکٹ ٹیموں کو ان کے ملکوں میں جا کر شکست سے دوچار ان کے اپنے گراﺅنڈ میں کیا اور ہماری کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ، آسٹریلیا، بھارت، افریقہ، ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کو ان ملکوں میں جا کر ان کے اپنے میدان میں شکست دے کر کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ چکی ہے۔
جھنڈے گاڑ دینے اور دنیا بھر میں اپنے ملک کا نام روشن کیا لیکن جب سے نا انصافیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ملک میں کرکٹ کا معیار تو گرتا چلا گیا۔ یہ ہی وسیم، وقار، ظہیر عباس، جاوید میانداد، راشد لطیف، محمد یوسف جیسے شاندار کھلاڑی جب تک میرٹ پر منتخب ہوئے تو یہ دنیا کے بہترین کھلاڑیوں میں شمار ہوتے چلے گئے مگر ان کے بعد نا انصافیوں کی وجہ سے اہل کھلاڑی دلبرداشتہ ہو کر یا کھیلوں کی دنیا سے دور ہوتے چلے گئے بلکہ اکثر کسی کو جب بھی موقع ملا وہ ملک ہی چھوڑ کر چلے گئے۔ آج ہمارے ملک کے قیمتی ہیرے دوسرے ملکوں کی طرف سے کھیل کر ان ملکوں کا نام روش کررہے ہیں اس ہی طرح ہاکی کے میدان میں بھی ہماری برتری نہ صرف ختم ہو گئی ہے بلکہ اب ہم کوالیفائی راﺅنڈ میں بھی پہنچ جانے سے قاصر ہو گئے ہیں۔ یہ ہی حال اسکواش کا ہے، اس شعبہ میں ہماری برتری دنیا تسلیم کرتی تھی آج ہمارا نام و نشان بھی ختم ہوتا جارہا ہے یہ ہی صورت حال کرکٹ کے شعبہ کی ہے۔ اس کے ذمہ دار ہی ہمارے معاشرے کے ڈائناسور حکمران ہیں جنہوں نے نئے ٹیلنٹ کے ساتھ ایسے ہی نا انصافی کرکے ختم کردیا۔ جیسا کہ ڈائنوسوروں کی پرانی نسل نے اپنے بقاءکی خاطر اپنے بچوں کی بھینٹ چڑھا دی، خود تو محفوظ ہو گئے اور اپنی نئی نسل کو تباہ و برباد کرگئے۔ کرکٹ کے ڈائناسور حاکم نے اس شعبہ کا کیا ہوا ہے، کوئی نیا ٹیلنٹ کسی طرح سے کامیابی حاصل کرکے سامنے آتا ہے تو اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کرتے ہیں جیسا کہ اب فواد عالم اور سرفراز احمد کا کیا جارہا ہے۔
فواد عالم کے اوپر کرکٹ ٹیسٹ کے دروازے گزشتہ تیرہ سالوں سے بند کئے ہوئے تھے جب سے میڈیا آزاد ہوا اور اس نے فواد کے خلاف ان پابندیوں پر آواز اٹھائی تو ان ڈائنا سوروں نے مجبور ہو کر اس کو چانس دیا تو اس نے ثابت کیا وہ کتنا بڑا اثاثہ تھا جس کو رکھے رکھے زنگ لگایا جارہا تھا اس سے پہلے یہ سلوک انہوں نے سرفراز کے ساتھ کیا اور جب اس کو موقع ملا تو اس نے اپنے ملک کے لئے مسلسل کامیابی حاصل کرکے کرکٹ میدان میں اپنے جھنڈے گاڑ دیئے۔ پھر اس کے خلاف سازشیں کرکے اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جارہا ہے جیسا کہ فواد عالم کے ساتھ روا رکھا گیا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے ہمارے ملک کی کرکٹ کا موازنہ بنگلہ دیش، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں سے کیا جارہا ہے۔ یہ ہی حالات رہے تو ہم ان ملکوں سے بھی پیچھے رہ جائیں گے۔ جس طرح ہاکی کے میدان میں ہے یا اسکواش کے کھیل کا حال ہے۔
ظاہر جوان پہ مرتبہءآدمی کریں
جتنے بنے ہوئے ہیں خدا بندگی کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں