بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 173

کراچی اِک شہر بے آب و گیاں

کراچی کو بے یارو مددگار سمجھنے اور اسے بے دردی سے اور دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے اردو بولنے والے علاقوں کے رہائیشیوں کے ساتھ ناروا سلوک جاری ہے اور حکومتی ادارے ہوں یا اپوزیشن تمام کے تمام کراچی کے معاملے پر ایک معنی خیز خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ یہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کا کراچی صرف اردو بولنے والوں کا شہر نہیں بلکہ یہاں تمام قومیتوں کے لوگ نہ صرف آباد ہیں بلکہ یہاں کے وسائل سے فوائد بھی حاصل کررہے ہیں۔ حکومت کی ریڑھ کی ہڈی کا درجہ بھی اسی شہر کو حاصل ہے مگر نہ جانے کیوں یہاں کے مکینوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگوں پر روزگار کے دروازے بند ہیں انہیں جب اور جہاں دل چاہے روک کر پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ ان کی حب الوطنی پر شک کیا جاتا ہے۔ شاید اگر پرائیویٹ کمپنیوں کے دفاتر اس شہر میں نہ ہوتے تو یہاں کے نوجوان بھیک مانگنے پر مجبور کردیئے جاتے۔ آج کا کراچی خستہ حال روڈ اور تاریکی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں کے سابقہ نمائندوں نے جس نفرت کی بنیاد اس شہر میں ڈالی، وہ آج توانا درخت بن چکی ہے۔ سندھ کے لوگ کراچی کو اپنی میراث سمجھ کر جہاں اور جب چاہیں قبضہ کررہے ہیں۔ رہی سہی کسر ہماری افواج نے پوری کردی ہے۔ جس نے پورے شہر کے اہم علاقوں میں کنٹونمنٹ کے نام پر ہزاروں ایکڑ اراضی قبضہ میں لے رکھی ہے۔ نہ جانے وہ اپنے اس عمل سے کون سے دشمنوں پر نظر رکھنا چاہے ہیں۔ غرض کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں اور نہ کوئی یہاں کے مسائل پر آواز اٹھا رہا ہے۔
تحریک انصاف کے نمائندوں کو یہاں سے جیتنے کے باوجود یہاں کے مسائل کو حل کرنے کا خیال آج تک نہ آیا۔ اب ایک نیا سلسلہ میں آٹھویں ترمیم کے بعد شروع ہے۔ وہ ایک جنگ ہے جو وفاق اور سندھ حکومت کے مابین چھڑ چکی ہے اور اس جنگ کے نتیجہ میں کراچی مزید تباہیوں کے دہانے پر پہنچ رہا ہے۔ سپریم کورٹ کو بھی کراچی میں ہونے والی وہ بے ضابطگیاں نظر آتی ہیں جن کا تعلق عام شہریوں سے ہے۔ بڑے بڑے ڈاکوﺅں سے تو شاید سپریم کورٹ بھی خوف زدہ ہے۔ نہ جانے یہ نفرتیں کہاں کب اور کیونکر ختم ہو سکیں گی۔ آج کے نوجوان تعصب اور لسانیت کے رنگ میں بری طرح رنگ چکے ہیں اور وہ وقت دور نہیں کہ جب ملک کا یہ شہر جو پاکستان کا معاشی حب ہے، خون میں نہلایا ہوا دکھائی دے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں