بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 102

کراچی میں بلدیاتی انتخابات

کراچی میں ڈھائی سال بعد بلدیاتی انتخابات پایہ تکمیل تو تک پہنچ گئے مگر صورتحال اس قدر گمبھیر ہے کہ میئر کسی بھی جماعت کو منتخب ہو، تگڑی اپوزیشن کا سامنا کرے گا۔ واضح رہے کہ کراچی شہر میں سب سے زیادہ میئر جماعت اسلامی کے رہے ہیں اور جماعت اسلامی کے میئر نعمت اللہ خان کا نام بھی کراچی کو بنانے والوں میں سرفہرست ہے جب کہ دوسرے نمبر پر متحدہ قومی موومنٹ کے میئر دوبار منتخب ہوئے۔ اگر پیپلزپارٹی کی بات کریں تو ان کا میئر آج تک منتخب نہیں ہوا بلکہ فہیم الزماں صدیقی اور مرتضیٰ وہاب ایڈمنسٹریٹر ضرور رہے مگر پیپلزپارٹی کو کبھی کراچی کی میئرشپ نہیں ملی۔ اگر اس بار پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی یا تحریک انصاف میں سے کسی ایک جماعت سے بھی جوڑ توڑ میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر میئر پیپلزپارٹی کا ہوگا۔ دیکھنے میں آرہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے رہنما عندیہ دے رہے ہیں کہ ہم جماعت اسلامی کا میئر بنانے کے لئے تیار ہیں مگر لگتا ہے کہ یہ بھی پیپلزپارٹی کی ایک چال ہے اور یہاں پھر صدا سنائی دے رہی ہے کہ
”ایک زرداری سب پر بھاری“
الیکشن کے نتائج ایک بار پھر سودے بازی کو ہوا دینے کی وجہ بنیں گے اور منتخب ہونے والے امیدواروں اور پارٹیوں کے درمیان جوڑ توڑ شروع ہوچکا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم ایک مضبوط اور اچھے امیدوار دکھائی دے رہے ہیں اگر وہ کراچی کے میئر بن گئے تو پھر یقیناً کراچی کے لئے بہت بہتر ہو گا مگر اپوزیشن کی کھینچا تانی کی وجہ سے کراچی کے مسائل کو حل کرنے میں خاصی مشکلات درپیش آسکتی ہیں۔ ماضی کا کراچی شہر جہاں متحدہ قومی موومنٹ کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا تھا آج بے بس و مجبور ہونے کے باعث ریس سے تقریباً باہر ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق یہ کوشش ضرور کی گئی کہ متحدہ کے تمام دھڑوں کو یکجا کیا جائے۔ متحدہ کے بانی الطاف حسین کو واپس لانے کی بھی بازگشت سنائی دی مگر صورتحال واضح نہیں کہ آئندہ الیکشن میں کیا ہوگا۔ آیا کہ اسٹیبلشمنٹ وعدے کے مطابق خود کو سیاسی عمل سے دور رکھے گی یا ماضی کی طرح پردے کے پیچھے بیٹھ کر ڈوریاں ہلائے گی۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ملک میں اتنے اسٹیک ہیں کہ وہ اپنا قبضہ نہ تو کراچی سے چھوڑیں گے اور نہ ملک کی دیگر شہروں سے، اور یوں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت میں وہ سیاسی جوڑ توڑ کا حصہ رہیں گے۔
دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ الیکشن کے نتائج کے بعد پاکسان تحریک انصاف جو پیپلزپارٹی پر تابڑ توڑ حملہ کرتی رہی ہے کیا فیصلہ کرتی ہے۔ تمام نظریں اس وقت کراچی کے میئر کے انتخاب پر براجمان ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں