بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 526

کراچی کی صفائی، سیاسی کھینچا تانی کی نظر

اگر دیکھا جائے تو حقیقتاً کسی بھی ملک میں عوام کے بنیادی مسائل حل کرنا، لوکل گورنمنٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ملک بھر میں لوکل گورنمنٹ تو موجود ہے۔ مگر تنخواہیں اور مراعات لینے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتی۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر کراچی کا کچرا صاف ہوگیا۔ سڑکوں کے گڑھے بھر دیئے گئے، گٹر کے ڈھکن لگ گئے تو پھر ڈیفنس، کلفٹن کا رُخ کون کرے گا۔ بحریہ ٹاﺅن میں جائیدادیں کون بنائے گا، بکنگ کون کرائے گا۔ چنانچہ روشنیوں کے شہر کو تعفن زدہ جان بوجھ کر بنایا جارہا ہے۔ سندھی اور مہاجر قیادت میں تناﺅ نے کراچی کے مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے۔ سندھ گورنمنٹ میں سندھیوں کی بھرمار اور لوکل گورنمنٹ مہاجروں کے پاس، حکومت اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ کراچی بلدیہ فنڈز نہ ہونے کا رونا روتی رہتی ہے۔ اور سندھ گورنمنٹ کراچی کے لئے پیسہ دینے کو تیار نہیں۔ ان حالات میں کراچی کے عوام کس کے سامنے اپنا رونا روئیں۔
کراچی میں گندگی، کچرے اور تعین کی صورتحال اب بحران کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ صحت کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ بارشوں کو ہوئے کئی ہفتہ گزر گئے مگر کئی علاقوں میں بارش کا پانی اور قربانی کے جانوروں کی آلائشیں مکمل طور پر صاف نہیں کی گئیں جس کے نتیجہ میں مکھیوں اور مچھروں کی بھرمار ہے۔ صوبائی اور وفاقی نمائندے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے علاوہ کوئی عملی اقدام نہیں کررہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک دوسرے پر گندگی اچھالنے والے شہر کی گندگی کب صاف کریں گے۔ کہتے ہیں جس کے پاس دینے کو جو کچھ ہوتا ہے وہی وہ دوسرے کو دیتا ہے۔ اب اخلاقیات کا فقدان ہے، اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار دوسرے کو ٹھہرانا فیشن بن چکا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کے باسیوں سے جینے کا حق چھین کر انہیں اس گندگی کے ڈھیر میں دفن کردیا جائے گا۔ اسکول و کالج کے داخلہ گیٹ پر تعفن ہے اور سلام ہے ان طالبعلموں پر جو ان حالات میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور امید کی اک کرن کے منتظر ہیں کہ کبھی تو حالات بدلیں گے۔ حیرت ہے کہ آئے دن حادثوں سے دوچار ہونے کے باوجود آج بھی کراچی کے باسی پرامید ہیں کہ اچھے دن ضرور آئیں گے۔ کراچی بھر کے دواخانے اور ہسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں، شہر میں ہیضہ پھیل رہا ہے مگر اقتدار میں بیٹھے گونگے بہرے اور اندھے نمائندے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کراچی کی مین شاہراہیں ہوں یا ساحل سمندر کوئی بھی جگہ تعفن سے پاک نہیں۔ کراچی کا مسئلہ تبھی حل ہو سکے گا کہ جب کراچی پر اپنا حق جتانے والے تمام ادارے خواہ وہ صوبائی ہوں یا وفاقی، مل کر کراچی کے بارے میں فوٹو سیشن کرنے کے بجائے حقیقی کوششیں کریں۔
کراچی کے گھروں میں بیٹھے تمام انجینئرز، ڈاکٹرز، وکلاءاور عام شہری کو اپنی مدد آپ کے تحت کراچی کو صاف کرنا چاہئے۔ کراچی میں 12 ہزار ٹن سے زائد کچرا روزانہ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن بمشکل 50 فیصد اُٹھایا جاتا ہے۔ باقی گلی کوچوں، شاہراہوں یا پھر ندی نالوں میںپھینک دیا جاتا ہے جس کے سبب نالے بند ہو جاتے ہیں اور بارش کی صورت میں اُمد آتے ہیں اور کراچی سمندر کا نظارہ پیش کرنے لگتا ہے۔ بچے ڈوبنے لگتے ہیں، کہیں پانی کے سبب مرنے لگتے ہیں تو کہیں بجلی کے کرنٹ کے نیجہ میں مرنے لگتے ہیں۔
سونے پہ سہاگہ یہ کہ بلدیہ عظمی کی کچرا گاڑیاں ناکارہ کھڑی ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں۔ نہ جانے کراچی پر وہ وقت کب آئے گا کہ جب کراچی کی سڑکیں کشادہ اور ہموار ہوں گی۔ انہیں ماضی کی طرح دھویا جائے گا۔ کب کراچی کی شاہراہوں کے درمیان پھول اور غنچہ لہلہائیں گے۔ نہ جانے اب کبھی پھر ایسا ہو گا یا پھر یہ تادم مرگ خواب ہی رہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں