Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 620

کرپشن کی ذمہ دار؟

کرپشن یا بدعنوانی پوری دُنیا کے لئے ایک مسئلہ ہے، کوئی ملک بھی اس سے بچا ہوا نہیں ہے۔ جہاں بھی لوگوں کے پاس اختیارات ہیں ان میں سے زیادہ تر نا جائز طریقے سے دولت آسانی سے بنا لیتے ہیں۔ دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جہاں کرپشن چاہے وہ حکومتی سطح پر ہے اس سے ایک عام آدمی کی زندگی اس طرح متاثر نہیں ہوتی کہ اسے کھانے کے لالے پڑ جائیں لیکن ہمارے جیسے ملک میں جہاں ایک عام آدمی کے حصے کی روٹی بھی کرپشن کی نذر ہو جاتی ہے اور نتیجے میں بد اعتمادی، بے چینی، بے یقینی اور پھر چوری چکاری شروع ہو جاتی ہے۔ حکومتی سطح پر جب کرپشن کو سہارا ملتا ہے تو پھر یہ زہر پورے معاشرے میں سرائیت کر جاتا ہے۔ عدلیہ تک اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی اور ایسے غریب ملک میں بدعنوانی وہاں رہنے والے انسانوں کے لئے بہت تکلیف کا باعث ہوتی ہیں۔ زیادہ تر کاروباری افراد، روزمردہ استعمال کی اشیاءکے ٹھیکے دار مختلف قسم کے لائسنس کی وصولی کرنے والے افراد اپنے کام ناجائز طریقے سے نکالنے کے لئے رشوت کا سہارا لیتے ہیں۔ گھوم پھر کر آخر میں اس کا براہ راست اثر غریب آدمی پر پڑتا ہے۔ کیوں کہ اس رشوت کے کام سے منافع کی وصولی جس میں دی گئی رشوت کی وصولی بھی شامل ہوتی ہے۔ یہ تمام رقم غریب آدمی کی جیب سے ادا ہوتی ہے۔ غریب اور وسائل رکھنے والے یعنی قدرتی وسائل رکھنے والے ممالک میں حکومتی سطح پر کرپشن کی اصل وجہ بڑی طاقتیں اور ہر خطے میں اپنا اثر قائم کرنے کے لئے رسہ کشی ہے اور ان ہی کی وجہ سے چھوٹے ممالک میں بدعنوانیاں جنم لیتی ہیں جو حکومتی اداروں سے شروع ہو کر پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ غریب ممالک کے حکومتی عہدے داروں بشمول صدر اور پرائم منسٹر کو خریدا جاتا ہے، ان کو مغربی ممالک میں جائیدادیں اور پیسہ دیا جاتا ہے، بدلے میں اس ملک کے قدرتی وسائل پر قبضہ اپنی اجارہ داری قائم کی جاتی ہے لہذا کسی بھی چھوٹے ملک میں جس سے ان بڑی طاقتوں کو کوئی بھی فائدہ حاصل ہو رہا ہوتا ہے یہ اپنی مرضی کی حکومتی چاہتے ہیں لہذا بے انتہا پیسہ رشوت کی مد میں خرچ کیا جاتا ہے اور یہ رشوت ایک وائرس کی طرح پورے معاشرے میں پھیل جاتی ہے۔ یہ کام بڑے پیمانے پر ہوتے ہیں، دو ہمسایہ ممالک کے درمیان حالات خراب کرنا اور پھر اپنے جنگی سامان کو فروخت کرنے کی پیشکش کرنا۔ چاہے ان دونوں ممالک کے درمیان کبھی جنگ نہ ہو لیکن ایسے موڑ پر حالات کو لانا کہ جنگ کا سماں بن جائے، کبھی آپ غور کریں جنگی سامان کے جتنے بھی معاہدے ہیں وہ عرب ایشیاءیا افریقی ممالک کے ساتھ ہیں، یوروپ اور بھی ممالک ہیں یا کچھ ایسے ممالک جو ایشیائ، عرب اور افریقہ میں ہیں جن سے ان بڑی طاقتوں کو کوئی فوائد حاصل نہیں ہیں لہذا وہ سکون سے رہ رہے ہیں۔ انڈیا کو اسلحہ بیچا جاتا ہے تو اس کے مقابلے میں پاکستان کو اسلحہ دیتے ہیں اسی طرح یمن پر حملے کے لئے سعودی عرب غرض صرف ان ہی ممالک کے ساتھ معاہدے ہیں جہاں ان کی کسی طور دلچسپی ہے۔ لہذا ایسے ممالک میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنا ہوتی ہے اور اگر ان ممالک میں ان کی مرضی کی حکومت نہیں بن پاتی اور دوسری حکومت ان کی بات ماننے سے انکار کر دیتی ہے تو اس حکومت کو ہٹانے کے لئے اس کے ضمیر فروش سیاسی رہنماﺅں کو خریدا جاتا ہے۔ ملک میں انتشار پھیلانے اور عوام کو حکومت کے خلاف بھڑکانے کے لئے بے انتہا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے اور سادہ عوام ایسے وطن فروش، جھوٹے اور لالچی لیڈروں کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ یہ لیڈر جو اپنی تقریروں میں غریبوں کا درد لئے ہوتے ہیں جو وطن کے لئے جان دینے کو تیار ہیں ذرا ان کی شاہانہ زندگی دیکھئے۔ ان کی جائیدادیں، مغربی ممالک میں ہیں ان کے بچے باہر کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور وہاں رہ کر ٹھاٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ اپنے خاندان کو اپنے ملک میں رکھنا بھی نہیں چاہتے اور غریب لوگ ان کے پیچھے اپنے بچوں کو یتیم کر جاتے ہیں۔ اس کرپشن کی وباءکا شکار صرف ہمارا ملک ہی نہیں ہے۔ عالمی سطح پر چین، جاپان، کوریا، فلپائن، یوکرائن اور بہت سے دوسرے ممالک اس کی زد میں ہیں۔ جاپان جیسا ملک بھی کرپشن میں 176 ممالک میں سے 20 ویں نمبر پر ہے جب کہ کوریا باونویں نمبر پر ہے۔ چین میں پچھلے ایک سال میں 3 لاکھ افراد کو کرپشن کے جرم میں گرفتار ہوئے۔ دو لاکھ کو سزائیں، زیادہ سخت نہیں ہوئیں لیکن ایک لاکھ کو لمبی قید، عمر قید اور موت کی سزا ہوئی۔ اس طرح تین سال کے عرصے میں چین میں 10 لاکھ افراد گرفتار ہوئے۔ چین اس وقت دنیا کے نقشے پر ایک طاقت بن کر اُبھر رہا ہے اور سپرپاور بننے کی طرف رواں دواں ہے لہذا کچھ طاقتیں نہیں چاہتیں کہ چین ترقی کرے لیکن چین پھر بھی کرپشن کے خلاف سخت جنگ لڑرہا ہے۔ اسی طرح ساﺅتھ کوریا کے تین صدر اب تک کرپشن کے جرم میں جیل جا چکے ہیں۔ ان تمام باتوں اور عالمی مسائل سے ہٹ کر ہم اپنے ملک پر نظر ڈالتے ہیں۔
دنیا کے کئی ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں اگر کوئی حکومتی عہدے دار یا کوئی ذمہ دار شخص کسی دوسرے حکومتی عہدے یا ذمہ دار شخص پر کرپشن اور ملکی خزانہ لوٹنے اور خردبرد کا الزام لگاتا ہے تو الزام لگانے والے شخص کو پارلیمنٹ، کانگریس یا سینیٹ کے مخصوص پینل کے سامنے جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔ ثبوت فراہم کرنا ہوتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو جھوٹا الزام لگانے پر خود اسے سزا بھگتنا پڑتی ہے اور اگر الزام صحیح ثابت ہو تو تحقیقات کے بعد چاہے وہ اس ملک کا وزیر اعظم ہو اسے سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے بے انتہا افراد ہیں جن پر کرپشن لوٹ مار اور قتل کے الزامات ہیں اور وہ آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ سیاست میں حصہ بھی لے رہے ہیں اور لوگوں پر دھونس بھی جما رہے ہیں اور ان پر الزامات لگانے والے بھی کوئی معمولی لوگ نہیں ہیں۔ سیاسی لیڈر، چیف جسٹس، فوج کے اعلیٰ عہدے دار جب چاہیں کسی خاص سیاسی لیڈر، کسی عہدے دار یا ملک کے سربراہ پر کرپشن کے الزامات، ملک کو لوٹنے، خزانہ خالی کرنے، بڑے بڑے پراجیکٹ میں کمیشن کھانے کے الزامات لگا دیتے ہیں اور یہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے تمما عوام اس تذبذب کا شکار ہیں کہ جن پر الزامات لگائے گئے ہیں کیا وہ واقعی کرپٹ ہیں، چور ہیں، یا لٹیرے ہیں یا صرف سیاسی مخالفت کا شکار ہیں۔ کیوں کہ ان پر الزامات قانونی کارروائی پر اتنی ڈرامہ بازیاں اتنے الجھاوے پیش کئے جاتے ہیں کہ جو ایک عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہیں۔ نواز شریف، زرداری، شرجیل میمن، عزیر بلوچ، ڈاکٹر عاصم، راﺅ انور اور دیگر بے شمار ن لیگ، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے رہنما جن پر نہایت ہی سنگین الزامات ہیں لیکن جب ان کو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو ایک کمزور سا مقدمہ بنایا ہوا ہوتا ہے۔ جس میں یہ آسانی سے بچ جاتے ہیں اور پھر اسی کا سہارا لے کر مظلومیت ظاہر کرتے ہیں اور بڑے مقدمات سے بچ جاتے ہیں۔ مسلسل کئی سالوں سے یہ ڈرامہ بازیاں کرکے عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ اگر یہ تمام سنگین الزامات صحیح ہیں تو ان کو سزا کیوں نہیں ہوتی، کیوں چوری کیا ہوا پیسہ واپس نہیں آتا ہے، ان پر فوری طور پر مقدمہ چلانا چاہئے اور الزامات لگانے والوں کو ہی کٹہرے میں لانا چاہئے۔ مجرموں کو سزا ملنا چاہئے۔ ورنہ صاف طور پر قوم کو بتانا چاہئے کہ ان پر تمام الزامات جھوٹے ہیں۔ یہ لوگ بے گناہ ہیں، کسی ایک طرف تو ناﺅ کو لگانا چاہئے۔ کیوں عوام کو دھوکہ میں رکھا جاتا ہے اور باتیں کرکر کے صرف واہ واہ وصول کی جاتی ہے۔ جیسا کہ راحیل شریف کر گئے۔ ڈانڈا اٹھا کر کہتے تھے سب کو دیکھ لوں گا۔ اب ان کی جگہ باجوہ صاحب ہیں اور جسٹس ثاقب نثار بھی خوب واہ واہ وصول کررہے ہیں اور ابھی تک کوئی بڑا کارنامہ سامنے نہیں آیا۔ خدارا اس قوم پر رحم کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں