تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 502

کرکٹ مافیا

عمران خان کی سیاسی ٹیم کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی بنائی ہوئی کرکٹ کی انتظامی ٹیم جس کے سربراہ احسان مانی اور وسیم خان ہیں اس کا حشر بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوتا جارہا ہے۔ مصباح الحق نے کرکٹ ٹیم کا وہی حشر کیا ہوا ہے جو وسیم اکرم عثمان بزدار پلس نے پنجاب کی حکومت کا کیا ہوا ہے۔ کرکٹ ٹیم میں مصباح کے ساتھ وقار یونس کو بھی موجودہ کرکٹ کے زوال میں برابر کا شریک سمجھا جا سکتا ہے جس نے سرفراز کے ساتھ پچھلے دور میں جس طرح کا سلوک روا رکھا اس کو بھی نہیں بھولنا چاہئے۔ یوں تو اب سرفراز کو ہٹا کر اظہر علی کو ٹیسٹ ٹیم کا کپتان بنا کر کرکٹ کو برباد کرنے میں اس کرکٹ مافیا کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے جس نے ابتداءسے ہی کرکٹ میں جانبداری کے کھلم کھلا مظاہرے کرکے ٹیلنٹ کو آگے نہیں کیا جاتا۔ جب کہ اس موقع پر پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں امتیاز روا رکھا جاتا تھا۔ یہ دیکھا جاتا تھا کون سا کھلاڑی لاہو رسے ہے یا کراچی سے یا ملتان سے ہے یا مردان سے ہے۔ ٹیم کا انتخاب علاقائی بنیادوں پر ہوتا تھا۔ یوں کسی خاص علاقے کا بہترین ٹیلنٹ اس وجہ سے ضائع ہو جاتا کہ وہ کوٹہ سسٹم کا شکار ہو جاتا۔ ایک زمانے میں کراچی کے حنیف محمد پر جاوید برکی اور سعید احمد کو فوقیت دی جاتی۔ بعد میں جاوید میانداد پر سلیم ملک کو فوقیت دی جاتی تھی۔ یوں کراچی کے باسط علی، محسن کمال جیسے بہترین کرکٹ کھلاڑی اس ہی امتیاز کا شکار ہوئے۔ موجودہ کرکٹ ٹیم میں فواد عالم جیسے کھلاڑی نے اندرون ملک اور بیرون ملک اپنے کھیل سے ماہرین کو بہتر متاثر کیا تھا اس جیسے کھلاڑی کے ساتھ امتیاز برتا گیا اس ہی طرح موجودہ ٹیم میں متبادل وکٹ کیپر کے طور پر بڑی مشکل سے جگہ بنانے والے سرفراز احمد کو شامل کیا گیا۔ پھر کرکٹ ٹیم کی تین میچوں میں ناقص کارکردگی کے بعد دنیا کی مضبوط ترین ٹیم میں سرفراز کو شامل کیا گیا۔ سرفراز نے اپنی موجودگی سے ٹیم میں دو مشکل پوزیشنوں کو مستحکم کیا۔ پہلے اس نے ناصر جمشید کی ناقص کارکردگی کے بعد اوپننگ بیٹنگ کو مضبوط بنایا اور 49 گیندوں پر 49 رنز بنا کر رن آﺅٹ ہوا۔ بعد میں پھر اس نے وکٹ کیپر کے طور پر عمر اکمل کے ناکام ہونے کے بعد اپنے بالروں عرفان، وہاب اور راحت کی بہترین بولنگ کا ساتھ دے کر چھ کیچ پکڑ کر کیا۔ اس سے پہلے عمر اکمل نے ان بولروں کی محنت ان کے کیچ گرا کر ضائع کی ہوئی تھی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کبھی ناقص کارکردتی کرتے کرتے کسی ایک کھلاری کی بناءپر کبھی بہتر کھیل جاتی یا مخالف ٹیم کی بدتر کارکردگی کے باعث کوئی میچ با مشکل جیت پاتی۔ یہ ہی وجہ رہی کہ ورلڈکپ کے شروع ہونے سے پہلے پہلے چار بہترین ٹیموں میں پاکستان کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ ٹیم میں کبھی شکست پر یا تو کسی ایسے کھلاڑی کو جس کا کوئی پرسان حال نہ ہو اس کو بلی چڑھا کر میڈیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہوتی یا کسی سلیکٹر کو بلی کا بکرا بنایا جاتا۔ آج کل کرکٹ میں بہت پیسہ چل رہا ہے، بورڈ کے پاس بڑا بجٹ ہوتا ہے، اس کا زیادہ حصہ نئے ٹیلنٹ یا کھلاڑیوں کے بجائے مینجمنٹ پر خرچ ہوتا ہے، جن کو بڑی تنخواہوں کے ساتھ ساتھ اضافی الاﺅنس کی مد میں بڑی رقم ملتی ہے۔ دنیا بھر میں بورڈ کے خرچ پر عیاشی کے مواقع بھی حاصل ہو جاتے ہیں اس کے عوض مرضی کی ٹیم سلیکٹ کروائی جاتی ہے، کسی عہدے دار نے اگر انصاف کرنا چاہا تو اس کو فوراً ان تمام مراعات سے فارغ کرکے من پسند افراد کو متعین کیا جاتا ہے۔ دکھاوے کے طور پر کسی ایسے شخص کو اہم عہدے پر رکھا جاتا ہے جس کی ساکھ بہتر ہو مگر کام وہی ہوتا ہے کہ جس کو نوازنا ہو اس کو کسی نہ کسی مستحق کھلاڑی کو نظرانداز کرکے کسی چہیتے کو ٹیم میں شامل کر لیا جاتا ہے جب یہ چہیتوں کی ٹیم کسی مضبوط ٹیم سے ٹکراتی ہے تو اس کا وہی حشر ہوتا ہے جو پہلے ابتدائی میچوں میں پاکستان کی کرکٹ کا ہوا۔ اگر کرکٹ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا موازنہ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم سے کیا جائے تو یا بنگلہ د یش کی کرکٹ جس تیزی سے بہتر سے بہتری کی طرف گامزن ہے اتنی ہی تیزی سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم بد سے بدتری کی طرف گامزن ہے۔ ایک وقت وہ بھی آسکتا ہے جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم افغانستان اور امارات اور آئرلینڈ کی ٹیموں کے زمرے میں آجائے۔ کمنٹری بکس میں بیٹھے ہوئے بکیوں اور کرکٹ کے مافیا کو ملک کے وقار سے زیادہ اپنی اپنی سیٹوں کی فکر رہتی ہے۔ خدا کرے کہ اب بھی ہوش آ جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں