بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 450

کشمیر اور عالمی طاقتیں

وزیر اعظم عمران خان نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ وہ کشمیریوں کے سفیر ہیں۔ وہ آخر سانس تک کشمیریوں کی آزادی کے لئے لڑیں گے۔ حکومت نے جمعہ 27 اگست کے دن کشمیریوں سے یکجہتی کے لئے منانے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر ایٹمی جنگ ہوئی تو جیت کسی کی نہیں ہوگی۔ عوام اور فوج کسی مزاحمت کا جواب دینے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ بدقسمتی سے صرف طاقت ور حکومتوں کا ساتھ دیتا ہے۔ اس وقت سوا ارب مسلمان اقوام متحدہ کی جانب دیکھ رہے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ ظالم اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے والوں کو دُنیا ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔ واضح رہے کہ عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلیکے آئندہ خطاب کو نہایت اہمیت دی جارہی ہے کیونکہ ان کے خطاب کا مرکز مسئلہ کشمیر ہوگا۔ یہ صحیح ہے کہ کشمیر کا معاملہ عالمی سطح پر اُٹھ چکا ہے۔ اور دنیا کو کشمیر کو ایک مسئلہ کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ مگر اس کا حل پاکستان اور بھارت کو مل کر طے کرنا ہے۔ حل ہی میں ہونے والی G-7 کانفرنس میں مودی نے امریکی صدر کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کو قبول کرنے سے ایک بار پھر انکار کردیا ہے۔ مگر یہاں پر دال میں کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی نظر آتی ہے۔ دوسری جانب ہمارے حکمرانوں اور ہماری افواج نے بھڑکیاں تو بہت ماریں، مگر نتائج یکسر مختلف نظر آئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے آخری سانس تک لڑنے کا عزم کیا مگر چند ہی لمحوں بعد چسم فلک نے دیکھا کہ ہم نے بھارتی جنرل کے آگے مسکراتے ہوئے ہتھیار ڈال دیئے۔ اور میڈیا کے سامنے کہہ دیا کہ جنگ میں ہار جیت تو ہوتی ہے۔ ملک کو دو لخت کر دیا اور کبھی اس دن کو ندامت کے طور پر بھی نہیں منایا۔ اور نہ اپنی اس غلطی کا ذکر کرکے اپنی قوم کو یہ احساس دلایا کہ ہم آئندہ غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔
عمران خان کے بیانات ایک جگہ مگر دیکھنا ہو گا کہ عالمی طاقتیں اس مسئلہ کشمیر کا تیل کیسے نکالتی ہیں اور کون کون اس تیل میں حصے دار ہوگا؟ حالیہ G-7 کانفرنس میں صدر ٹرمپ اور مودی کی ملاقات کے دوران دونوں سربراہان ہنستے رہے اور صدر ٹرمپ مودی کی ہندی میں بات چیت پر ان کا مذاق اڑاتے رہے۔ دونوں کی ملاقات کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جسے دیکھ کر کہیں یہ محسوس نہیں ہوا کہ صدر ٹرمپ کو کشمیریوں کے خون بہنے کا کوئی دُکھ ہے۔ یا وہ جس شخص سے وہ مل رہے ہیں وہ کشمیریوں کا قتل عام کررہا ہے۔ بلکہ یوں لگا کہ اُس کے حوصلے بلند کئے جارہے ہیں اور نہ صرف مشرق وسطیٰ، بلکہ دنیا بھر سے ایوارڈ دلوانے کی تیاریاں ہیں۔ پاکستان بھارت کے درمیان مذاکرات کی بات کی جارہی ہے، مگر کیا یہ بات چیت گزشتہ کئی دہائیوں سے نہیں ہو رہی؟ اور کیا س کا کوئی نتیجہ نکلا؟ دنیا جانتی ہے کہ بھارت کشمیر کے معاملہ میں آج تک ہٹ دھرمی اپنائے ہوئے ہے۔ اور وہ کبھی کشمیر کے معاملہ پر سنجیدہ مذاکرات نہیں کرے گا۔ مودی کا دورئہ اسرائیل اور مشرق وسطیٰ، پھر G-7 میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے منظر مل جل کر ایک بھیانک منظرنامہ پیش کررہے ہیں۔ جس کا ڈراپ سین جلد ہونے جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں نے اپنے مسئلہ کو خود حل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اور بشمول پاکستان، کسی پر بھروسہ کرنے کے لئے تیار نہیں۔
بحیثیت مسلمان ہم جانتے ہیں کہ انسان کی اپنی حکمت عملی ہے، اور اللہ تعالیٰ کی اپنی۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہونا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کا آخری فیصلہ ہے۔ مگر یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا، اب وہ خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ اللہ کا قانون انصاف پر مبنی ہے، مذہب کی بنیاد پر نہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ مظلوموں کی مدد کرے اور ظالموں کو واصل جہنم کرے۔ خواہ وہ خود کو کتنا ہی طاقتور کیوں نہ سمجھتے ہوں، ابابیلوں کے کنکر برداشت نہیں کرسکتے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں