Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 462

کھلواڑ

گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان ،اس کے آئین ،اس کے قانون ،اس کی حیثیت ،اس میں موجود مذاہب ،ثقافت ،غرض کے اس کے ساتھ ہر طرح سے کھلواڑ ہو تا رہا ہےاور ابھی تک ہورہا ہے۔ جس سیاست دان نے جس حکمران نے جب چاہا آئین میں تبدیلی کروادی قانون بدل ڈالا اور اپنے اپنے مفاد میں پورے ملک کا نظام درہم برہم کرڈالا ۔بڑے بڑے حادثے ،سانحے اور قتل سیاست کی نظر ہوگئے۔اور مرضی کی سیاست کا یہ عالم ہے کہ بڑے بڑے جرائم پر پردہ ڈال دیا گیا اور عام آدمیوں کی پھانسی کے اعلانات ٹی وی پر زور شور سے پیش گئے گئے ۔عدالتوں میں فیصلے جانب داری سے ہورہے ہیں عدالتوں میں بھی سیاسی دکان داری زوروں پر ہے اور عدالتی کارروائیاں بھی سیاسی نظریہ پر ہو رہی ہیں۔مرضی کے مطابق جس جرم کو سامنے لانا ہوتا ہے سامنے لایا جاتا ہے اور جسے چھپانا ہوتا ہے تو ایک ہزار گواہیوں کے بعد بھی مجرم آزاد گھوم رہے ہوتے ہیں قومی خزانے کو بے دردی سے رشتے داروں میں بانٹنا ایک عام سی بات ہے لوٹ مار بد عنواناےں ایسے ہوئی ہیں جیسے یہ ملک کے آئین میں شامل ہو۔بڑے بڑے مجرم جو اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ اٹھاکر بڑی بڑی رقمیں جن پر عوام کا حق تھا باہر لے گئے اور ملک میں بھی جائیدادوں کی صورت میں لئے بیٹھے ہیں ،اور جب راز کھلا پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو حکومت کو کچھ دے دلاکر ہر الزام سے بری ہوگئے یہ کیسا نظام ہے عقل حیران ہے یہ کس طرح کا ملک ہے یہ کس نظام کے تحت چل رہا ہے نا تو یہاں شرعی نظام ہے نا کوئی جمہوری نظام ہے اور نا ہی کوئی فوجی نظام ہے۔یہاں صرف حیب کتری نظام چل رہا ہے ہر شخص ایک دوسرے کی جیب کاٹنے میں مصروف ہے۔پولیس والا ٹھیلے والے کی جیب کاٹتا ہے تو ٹھیلے والا صارفین کی جیب کاٹ رہا ہے اور صارفین اپنی نوکری پر یا تو اپنے مالک کی جیب کاٹ رہا ہے یا اگر گوورنمنٹ کے آفس میں ہے تو وہاں کام کے لئے آنے والے لوگوں کی جیب کاٹ رہا ہے اور حکمران قومی خزانے کی جیب کاٹتے رہے۔بڑے بڑے سیاست دان ،وزرائ ، سرمایہ دار ،حکومتی ارکان ان سب کی ایک ایک چین ہے جو کرپشن میں ملوّث ہے اس چین کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے ایک دوسرے کو بچانا پڑتا ہے اور اس کے لئے ججوں کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے اور جج حضرات کو اپنے آپ کو بچانے کے لئے دوسروں کی مرضی پر فیصلے کرنا پڑ تے ہیں۔عمران خان جب سیاست میں آئے تو ان کے عزائم بلند تھے ۔ان میں نیک نیتی سے کام کرنے کا جذبہ تھا اور ابھی بھی ہے۔انہوں نے ملک کو سنوارنے کے لئے جتنے بھی وعدے کئے وہ نیک نیتی کی بنیاد پر تھے۔دنیا کے ہر اس ملک میں جہاں جمہوریت ہے وہاں کے سیاسی لیڈر ہمیشہ لمبے لمبے وعدے کرتے ہیں لیکن یہ سیاسی وعدے کہلاتے ہیں اور جب اقتدار میں آتے ہیں تو صرف پچّیس فیصد وعدے پورے کرپاتے ہیں۔ اور وعدے پورے نہ کرنے کی وجہ صرف یہ ہی نہیں ہوتی کہ وہ سیاسی لیڈر جھوٹا تھا یا بد عنوان تھا بلکہ بعض اوقات بہت سے ایسے مسائل بہت سی ایسی رکاوٹیں سامنے آتی ہیں کہ وہ مجبور ہوجاتا ہے ۔ان سیاسی وعدوں کو سیاست کا ایک اصول سمجھ کر ہر جگہ قبول کرلیا گیا ہے۔عمران خان نے بھی وعدے کئے اور یہ خلوص دل سے اور کام کرنے کے جذبے سے کئے تھے لیکن جس طرح کی مخالفتیں اور رکاوٹیں سامنے آئیں شائید اس کا اندازہ نہیں تھا۔دوسری سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہوئی کہ عمران خان نے الیکشن جیتنا تھا اور جیتنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ ایسے پرانے سیاست دانوں کو اپنے ساتھ ملائے جن کا اپنے علاقوں میں اثر رسوخ ہے ۔اور الیکشن جیتنے کے لئے پیسہ بھی درکار تھا لہذا سرمایہ داروں کو بھی ملانا تھا لیکن یہ وہ سرمایہ دار تھے جو اپنا سرمایہ صرف ڈبل کرنے کے لئے ہی لگاتے تھے عمران خان نے الیکشن تو جیت لیا اور پارٹی بر سر اقتدار بھی آگئی لیکن کرپشن کا خاتمہ کرپٹ لوگوں سے قوم کا پیسہ نکلوانا اور ان کو سزائیں دلوانا یہ کام وہ نہیں کرسکے اور نہ کرسکتے ہیں کیوں کہ کرپشن کی جڑیں اتنی دور تک پھیلی ہوئی ہیں کہ ان کو ختم کرنے کے لئے کئی دہائیاں چاہئے ہیں۔کرپشن میں کبھی بھی کسی ادارے کا ایک سربراہ یا ایک کوئی بھی افسر نہیں ہوتا بلکہ کرپشن ہمیشہ ایک چین یعنی زنجیر کی صورت میں ہوتی ہے زنجیر کا کوئی ایک کڑہ بھی خطرناک یا بیکار ہوجائےتو اسے خاموشی سے بیچ میں سے نکال دیا جاتا ہے اور نکال دینے کے بھی کئی طریقے ہیں۔ اگر عمران خان اس کرپشن کو بہت سخت طریقے سے اور بغیر کسی رعائیت کے ختم کرنے کا عزم کرلیں تو یقین جانئے پی ٹی آئی سے کئی کڑے نکالے جائیں گے لیکن اس کے بعد یہ زنجیر ٹوٹ جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے اس مسئلے پر تھوڑی خاموشی اختیار کرلی ہے اگر کچھ کہہ بھی رہے ہیں تو صرف قوم کو مطمئن اور خوش کرنے کے لئے ہی کہا جارہا ہے۔عمران خان کو اپنی پارٹی کے ان پرانے سیاست دانوں سے تعاون بھی نہیں مل رہا ہے کیونکہ یہ لوگ اتنی ایمانداری سے کام کرنے نہیں آئے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ہر اس بات کو جو اصول کے خلاف ہے مجبورا” قبول کرنا پڑرہا ہے۔کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کی گوٹ پھنسی ہوئی ہے۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ ایک شخص کے بارے میں یہ معلوم ہوتے ہوئے بھی بلکہ ثبوت کے ساتھ کہ اس نے عوام کا پیسہ لوٹا ہے ناجائز طریقے سے حکومت کو نقصان پہونچا کر مال بنایا ہے اس سےپچّیس فیصد لے کر اسے آزاد کردیا جاتا ہے کس اصول کے تحت کس قانون کے تحت یہ سب کوئی نہیں پوچھ سکتا۔اربوں کی کرپشن اور کچھ فیصد واپسی ۔ریاست کی گمنام زمینوں کے لئے متعلقہ محکموں کو رشوت دے کر کوڑیوں کے دام خرید کر ان پر مکانات بنا کر لوگوں کو سستے داموں بیچ کر منافع بھی خوب کمایا اور لوگوں کی واہ واہ بھی بٹوری اور خریدنے والے بے وقوفوں کو یہ نہیں معلوم کے یہ وہ زمینیں تھیں جن پر ان ہی لوگوں کا حق تھا۔ان معاملات میں عدالتیں بھی ان کرپٹ لوگوں کے ساتھ ہی ہیں۔اور جب کسی ملک کی عدالتیں تعلقات،رشتے داری اور تحفے تحائف کی بنائ پر فیصلے کرنے لگیں تو اس ملک کا بیڑہ غرق ہونا لازمی ہے۔ دنیا کے کسی بھی معاشرے میں ججوں کے پاس اتنے اختیارات ہوتے ہیں کہ کسی بھی مجرم کو چاہے وہ ملک کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو سزا سنا سکتے ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ ان کے فیصلے پر انکار کرسکے۔لیکن جہاں خود ہی انصاف کے ترازو سے ڈنڈی ماری گئی ہو وہاں عدالت کا نظام خرید و فروخت کا بازار بن جاتا ہے۔ہر شخص کو صرف اپنا مفاد عزیز ہے ملک و قوم کے ساتھ تو صرف کھلواڑ ہے۔ہر سیاسی پارٹی اور ان کے لیڈران یہ دعوی’ کرتے ہیں کہ صرف وہ ہی ملک و قوم کے ہمدرد ہیں۔اگر یہ اتنے ہی مخلص ہیں تو صرف ملک کی خاطر حکومت کے ساتھ مل جل کر بہتری کے لئے کچھ کریں لیکن صرف دور دور سے اعتراضات حکومت کو ہٹانے اور خود کرسی حاصل کرنے کی جدو جہد اللہ اس ملک کی حفاظت کرے اور اندرونی دشمنوں سے بچائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں