بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 436

کیا دِلی پھر اُجڑے گی؟

سنتے آئے تھے کہ دلی جو کہ آج بھارت کا دارالخلافہ ہے۔ 1857ءمیں ہونے والی جنگ آزادی کا اوّل دستہ شمار ہوتا تھا۔ جو 1911ءمیں تاج برطانیہ کے زیر انتظام ہندوستان کا دارالخلافہ بنا جس کے سبب آزادی کی تمام تحریکوں کا مرکز دلی ہی ٹھہرا۔ دلی کے دامن میں سیاحوں کے لئے بڑے دلچسپی کے سامان تھے جن میں لال قلعہ، جامع مسجد دہلی، چاندنی چوک، شہنشاہ ہمایوں کا مقبرہ، انڈیا گیٹ، حضرت ناظم الدین کا مقبرہ، پارلیمنٹ ہاﺅس، قطب مینار جیسے شاہکار دلی شہر کی خوبصورتی کی دلیل ٹھہرے۔ پانچ ہزار سال قدیم تاریخ رکھنے والا دلی ہمیشہ طاقت کا سرچشمہ رہا۔ مگر بنتا اور اجڑتا رہا۔ یہی دلی ہے کہ جہاں آج آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ دلی سے نریندری مودی کی شکست نے دلی والوں کا جینا حرام کردیا ہے اور موجودہ مودی حکومت دلی والوں سے الیکشن میں شکست کا بدلہ لینے کی آڑ میں اسے مذہبی رنگ دے رہی ہے۔ آر ایس ایس کا ماضی کا کردار بھی کچھ اچھا نہیں جس نے گجرات میں خونریزی کے ذریعہ چائے والے سے وزیر اعظم تک رسائی حاصل کی۔ ہندوﺅں کو یہ باور کرایا کہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے بچوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اگر یہی حال رہا تو بہت جلد مسلمان پورے ہندوستان میں غلبہ حاصل کرلیں گے۔ ہندوﺅں کو یہ سبق بھی پڑھایا گیا کہ مسلمانوں کے تو کئی ملک ہیں مگر ہندوﺅں کا ہندوستان کیوں صرف ہندوﺅں کا نہیں۔ کیوں نہ دنیا کے نقشہ پر صرف اور صرف ہندوستان ہندوﺅں کے لئے وقف ہو اور دیگر مذاہب کے لوگوں کی نسل کشی کی جائے۔ مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ جو ہندوستان میں ہیں خون میں نہلائے جارہے ہیں اور جو خود مسلم ملکوں میں ہیں وہ بھی آپس میں دست و گریباں ہیں۔ فرقوں کی تقسیم نے نفرتوں کو اس قدر عروج دیا ہے کہ جہاں سے واپسی ناممکن نظر آتی ہے۔ دہلی کے حالیہ واقعات دل دہلانے کے لئے کافی ہیں۔ ننھے ننھے بچوں کو زندہ درگور کردیا گیا۔ ماﺅں کے حمل ضائع کردیئے گئے۔ مسلمان عورتوں کی ان کے بچوں، شوہروں اور والدین کے سامنے بے حرمتی کی جارہی ہے۔ ڈنڈوں، لاٹھیوں، چاقوﺅں اور سریوں کا بے دریغ استعمال کرنے میں نہ صرف بنیاد پرست ہندو بلکہ ہندوستان کی پولیس بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ اہل محلہ کی حد تک تو کئی ایک مسلم خاندانوں کو ہندوﺅں نے بھی پناہ دی مگر جس کسی نے بھی پناہ دی یا مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی وہ بھی آر ایس ایس کے غنڈوﺅں کے تشدد کا نشانہ بنے۔ اس تمام صورتحال کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ہندوستان جس نے دنیا بھر میں نام کمایا، لابنگ کے ذریعہ ہندوستان کو ایک مضبوط ملک کی حیثیت سے نوازا آج چند بنیاد پرست ہندوﺅں کے ہاتھوں اپنی حیثیت کھوتا جارہا ہے۔ بیرون ملک موجود ہندوﺅں کی خاموشی بھی ایک سوالیہ نشان ہے دوسری جانب مسلمانوں کے علاوہ عیسائیوں پر بھی تشدد جاری ہے اور اگلا نمبر سکھوں کا ہے۔ یہی وہے کہ سکھ برادری بھی اقلیتوں کے حقوق کے لئے نکل کھڑی ہوئی ہے۔ اور لگتا یہی ہے کہ ہندوستان کے مزید ٹکڑے ہونے کا وقت قریب ہے۔
دلی میں جامع مسجد میں مسلمانوں کا جمع ہونا اور بعد ازاں روڈ پر نکل کھڑے ہونا، نقارہ خدا ہے۔ جسے اگر آج کے ہندوستان کے حکمرانوں نے نہیں سمجھا تو پھر تلخ تجربات سامنے آئیں گے اور انسانیت کا خون جب زمین پر گرتا ہے تو انقلاب لے کر آتا ہے اور ہندوستان میں انقلاب کا آغاز ہو چکا ہے اور لگتا یوں ہے کہ غزوہ ہند کا وقت قریب ہے کیونکہ شام، عراق اور لیبیا کے بعد اب ہندوستان میں شورش کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ لگتی ہیں۔ اگر آج لبرل ہندو باہر نہیں نکلا اور اس نے آواز نہیں اٹھائی تو پھر دلی تو اجڑے گا ہی مگر بچے کا ہندوستان بھی نہیں۔
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں