بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 82

کیا قائد اعظم کا دو قومی نظریہ دوبارہ غرق ہونے کو ہے؟

تحریک پاکستان کا آغاز ہوا تو قائد اعظم محمد علی جناح کے سامنے جو مقصد تھا وہ مسلمانوں کے لئے الگ ملک کا قیام عمل میں لانا تھا کیونکہ جناح کے مطابق ہندو اور مسلمان الگ الگ قومیں ہیں اور ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ یوں ہندو اور مسلمان دو الگ الگ مذاہب کی بنیاد پر ہندوستان اور پاکستان کہلائے مگر شومی قسمت کہئے کہ جہاں جہاں اور جس صوبہ میں دو قومی نظریہ کے بجائے نسل اور زبان کی بنیاد پر پہلے الگ صوبہ اور پھر ان کی آڑ میں پاکستان سے علیحدہ ہو کر الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہم میں سے بعض لوگوں نے پاکستان بننے کے بعد ہندو مسلم دو قوموں کے بجائے مسلمانوں میں بھی جائے پیدائش، زبان اور نسل کی بنیاد پر خود کو الگ قوم قرار دینا شروع کردیا۔ اس کے نتیجہ میں پاکستان اپنے قیام کے فوری بعد دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آگیا۔ اس عظیم سانحہ کی وجہ بھی پاکستان میں شروع ہونے والی زبان اور نسل کی بنیاد پر باہمی نفرت تھی جو آج ایک تناور درخت کا روپ دھار چکی ہے۔ اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم نے بنگلہ دیش بننے کے بعد یہ مشہور بیان دیا تھا کہ ہم نے سقوط ڈھاکہ کے ساتھ ہی قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کو بحر ہند میں ڈبو دیا ہے۔ آج پاکستان ایسے ہی کچھ نئے مسائل سے ایک بار پھر دوچار ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ ہم افغانستان اور پاکستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے، کسی نے دعویٰ کردیا ہے کہ ہم افغانی پیدا ہوئے تھے اور افغانی ہی رہیں گے حتیٰ کہ یہاں تک ہوا کہ پاکستان میں موجود پاکستانی شہریت کے حامل افغانیوں نے پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کیا۔ کسی نے سندھو دیش کا نعرہ لگایا اور قیام پاکستان کو غلط قرار دے دیا۔
کوئی کہہ رہا ہے کہ بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں، بلکہ ایک الگ ملک ہے۔ یہاں پاکستانی فورسز نے زبردستی بلوچستان کے لوگوں پر ظلم و جبر کرکے اپنا تسلط قائم رکھنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ جس کے نتیجہ میں یہاں کے بلوچ باغیوں نے اپنے ہی ملک کی فورسز کے ظلم کے خلاف دنیا کے مختلف ملکوں میں آزاد بلوچستان کی تحریکیں شروع کر رکھی ہیں، آج پھر چھوٹے صوبوں کے لوگوں کو محبتوں سے اپنا بنانے کے بجائے ایسے ہی اقدامات کئے جارہے ہیں جیسے مشرقی پاکستان کو بنگلہ د یش بناتے وقت کئے گئے تھے، جس کے نتیجہ میں ملک دولخت ہو گیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ سندھ میں شہر کی اور دیہی تفریق نے زور پکڑا تو متحدہ قومی موومنٹ بنا کر قومیتوں کے مابین نفرتوں کو فروغ دیا گیا۔ کوٹہ سسٹم لاگو کرکے سندھ کے عوام کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور سندھی اور مہاجر دو الگ الگ قومیتوں کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ سندھ اربن اور سندھ رورل کی تفریق نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ حد تو یہ ہے کہ ملک کی وفاق بھی اس آگ سے محفوظ نہ رہ سکی اور سابقہ صدر آصف علی زرداری جنہیں لبرل سمجھا جاتا ہے انہوں نے بھی قومی اسمبلی میں مہاجروں کو بھوکے ننگے ہونے کا خطاب دے دیا اور یہ بھول گئے کہ یہی لوگ پاکستان کے بانی تھے اور انہی لوگوں نے یہاں کے مقامی افراد کو ہندو کی غلامی سے آزاد کروایا اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا، مگر نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ پاکستان بنانے والوں کی اولادوں کو آج مقامی افراد نے فوج کے ساتھ مل کر دربدر کر رکھا ہے۔ ان کی اولادوں کے پاس نہ تعلیم رہنے دی، نہ نوکری اور نہ ہی ذہنی سکون، جو اپنے ذاتی کاروبار کے ذریعہ کامیاب ہوئے، انہیں اغواءکرکے تاوان وصول کیا جا رہا ہے۔ غرض یہ کہ آئے دن نفرتوں کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے اور یوں کئی ایک بنگلہ دیش بننے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اس نفرت کا فائدہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را“ نے خوب اٹھایا اور پسی ہوئی اور ظلم سہتی قومیوں میں نفرتوں کو مزید فروغ دیا۔ یوں پاکستانی افواج کے ان مظالم پر مجرمانہ خاموشی اور حصہ دار بنے رہنے کے باعث ان کے اپنے ہی ہم وطن ان کے مخالف ہو گئے اور نتیجتاً انہیں غدار کے لقب سے نواز دیا گیا۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا ہے؟ ان وجوہات اور اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے وہی روش اپنا کر حب الوطن اور غدار وطن کا سرٹیفکیٹ بانٹنا شروع کردیا۔ یعنی مارو بھی، اور رونے بھی نہ دو۔ مگر یہ یاد رکھا جائے اگر یہی کچھ ہوتا رہا تو یقین جانیے ہم غدار وطن ہی پیدا کریں گے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد اور نہ جانے کتنے سقوط دیکھنا ابھی باقی ہے۔ کل کے غدار خان عبدالغفار خان اور خان عبدالولی خان کے صاحبزادے پاکستان کی اسمبلی میں بیٹھ کر خود کو افغانی نژاد بتانے میں فخر محسوس کررہے ہیں اور اسی بنیاد پر دشمن ملک سے امداد بھی وصول کررہے ہیں۔ جی ایم سید کو فوت ہوئے عرصہ گزر گیا مگر ان کی تحریک آج بھی جاری ہے، کل کی اس تحریک کا نیا نام پیپلزپارٹی ہے جس کی قیادت آصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہے اور جو جی ایم سید کا بیانیہ دھرانے پر مجبور ہے کہ سندھ کا ووٹ اس نعرہ کا مرہون منت ہے اور فوج کی توجہ حاصل کرنے کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔ آج کراچی یرغمال ہے۔ یہاں کے لسانی رہنما لندن میں بیٹھے بھارت اور اسرائیل سے مدد کی درخواستیں کررہے ہیں۔
مگر اب بھی وقت ہے ہمارے سیاستدانوں کو سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ کوٹہ سسٹم کو ختم کرنا ہوگا۔ زبان اور نسل کی بنیادوں پر تفریق کے بجائے نئی پاکستانی نسل کو ایک سچا اور حب الوطن پاکستانی بنانے کے لئے انصاف کا دامن تھامنا ہوگا۔ تعلیم اور روزگار میں اقربا پروری کے بجائے حق دار کو اس کا حق دینا ہوگا۔ یقیناً انصاف سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی بھی حاصل ہو گی اور ہمارے ملک کی باگ ڈور اچھے اور با صلاحیت افراد کے ہاتھوں میں آئے گی۔ آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ زبان اور نسل کی بنیاد پر ملک کو مزید ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازش سے ہمیں محفوظ رکھے، آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں